ہیڈ لائنز

حیات سلطان المشائخ-مہد سے لحد تک

 حیات سلطان المشائخ-مہد سے لحد تک

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا قدس سرہٗ ہندوستان میں چشتی سلسلۂ طریقت کے چوتھےعظیم ترین بزرگ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ مؤرخین کے مطابق حضرت شیخ شیوخ العالم خواجہ فرید الدین گنج شکر معروف بہ ’’باباصاحب‘‘ قدس سرہٗ نے سلسلۂ چشتیہ کو بکمال وتمام منظم فرمایااور سلطان المشائخ قدس سرہٗ نے اُس سلسلے کو عروج وکمال بخشا اورہمہ جہت ترقی عطا فرمائی۔

یکتائےروزگارعلما ومشائخ نےآپ کے مقام ومرتبے کا مکمل خیال رکھا ہےاور آپ کے ساتھ اکرام واحسان کا معاملہ فرمایاہے جیساکہ شمس الملک حضرت مولانا شمس الدین رحمہ اللہ کا معمول تھاکہ جب کوئی اُن کے درس میں ناغہ کرتا/تاخیر سے پہنچتا تو فرماتے کہ مجھ سے ایسی کیا خطا ہوگئی ہے کہ تم نے ناغہ کیاہے یا دیر سے آئے، لیکن جب کبھی سلطان المشائخ درس میں غیرحاضر رہتے/ کسی دن دیرسے درس میں پہنچتے تو شمس الملک رحمہ اللہ آپ سےفرماتے :

ترجمہ: آخراتنا تو کرو کہ کبھی کبھی آؤ اور ہم پر ایک نگاہِ توجہ ڈال جاؤ۔  

دراصل روزاَول سے ہی سلطان المشائخ قدس اللہ سرہٗ مقبولانِ بارگاہ کی صف میں شامل ہوچکے تھے اور کاتب ِتقدیرنے آپ کو اپنا محبوب بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا،بس دنیا میں اس کا ظہور ہونا باقی تھا،چنانچہ اِس فیصلے کاظہور اُس وقت ہوا جب آپ شیخ کبیر بابا فرید قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے۔ جیساکہ شیخ محمد اکرام بیان کرتے ہیں کہ شیخ کبیرخواجہ فریدالدین نے ایک خواب دیکھا تھاکہ ہم نے ایک جال لگایا ہے۔ اُس میں زیادہ تر چڑیاں آئی ہیں، لیکن اُن میں ایک شہباز بھی آپھنسا ہے(اورشہباز سے حضرت شیخ کی مراد خواجہ نظام الدین اولیاتھے، جوآپ کی عظمت وجلالت کی روشن دلیل ہے ۔

مزید آپ سے پہلی ملاقات کے وقت شیخ کبیر خواجہ فریدالدین گنج شکر کااِس طرح فرمانابھی آپ کی رفعت وبلندی کی واضح دلیل ہےکہ

ترجمہ:تیری جدائی کی آگ نے بہت سےدلوں کو کباب کردیا تھا اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے بہت سی جانوں کو بےقرارومضطرب کررکھا تھا۔( آب کوثر، ص:۲۲۸)

شیخ جمال الدین ہانسوی رحمہ اللہ اُن مستند بزرگوں میں سے ایک ہیں جن پر شیخ کبیر بابافریدقدس اللہ سرہٗ کو کامل اعتماد تھا، اور اِس حد تک اعتماد تھا کہ شیخ جمال الدین ہانسوی رحمہ اللہ نے جب مخدوم علاءالدین صابر کلیری کا خلافت نامہ پھاڑ دیا اور یہ خبر شیخ کبیر تک پہنچی تو آپ نے فرمایاکہ جمال کا پھاڑا ہوا فرید نہیں سی سکتا۔لہٰذامخدوم علاءالدین رحمہ اللہ کو دہلی کے بجائے کلیر کا علاقہ مرحمت ہوا۔ لیکن جب سلطان المشائخ ، شیخ جمال الدین کے پاس خلافت نامے کی تصدیق کے لیے پہنچے تو وہ آپ سےبڑی خندہ روئی کے ساتھ ملے اور بے انتہا مہربانیاں فرمائیں اور یہ شعر پڑھا:

ترجمہ: اللہ رب العالمین کا ہزارہا شکر کہ گوہر ، گوہر شناس کے پاس پہنچ گیا۔(سیرالاولیاء(فارسی)، ص:۱۱۶- ۷ ۱۱ )

اِن کے علاوہ شیخ نجیب الدین متوکل، شیخ رکن الدین ملتانی، مخدوم جہاں شرف الدین یحی منیری، مخدوم اشرف جہاںگیر سمنانی قدست اسرارہم جیسے عظیم مشائخ نے بھی آپ کے کمال وجمال کا اعتراف کیا ہے اور عظمت کی نگاہ سے آپ کو دیکھا ہے۔

مزید برآں وحیدانِ عصر علماودانشوروں نےبھی آپ کو عظیم ترین القابات وخطابات سے یاد کیاہے، جیساکہ امیر خورد سید محمدکرمانی رحمہ اللہ آپ کا تذکرہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں:

 آں برہان الحقائق، آں سرور اولیاے دیں، آں پیشواے اصفیاے عالم یقین، آں عالم علوم ربانی، آں کاشف اسرار رحمانی، آں بظاہر وباطن آراستہ، آںوالۂ صفات حق جل وعلیٰ، آں عاشق ذات باری تعالیٰ، آں صورت لطافت، آں بکثرت بکامیاں اولیا معروف یعنی سلطان المشائخ نظام الحق والحقیقۃ والشرع والدین وارث الانبیاء والمرسلین سید سلطان الاولیاءنظام الدین محمد محبوب الٰہی بن سید احمد بن سید علی بخاری چشتی دہلوی قدس اللہ سرہٗ۔(سیرالاولیاء(فارسی)، باب اول،ص: ۹۱،مطبع محب ہند، دہلی، ۱۳۰۲ھ)

طوطی ہند امیر خسرورَحمہ اللہ نے آپ کی شان عظمت کچھ یوں بیان فرمائی ہے:

ترجمہ: قطب عالم خواجہ نظام الدین اولیا کا چہرۂ انورکامل آفتاب نما تھا۔ وہ جنیدوشبلی اور معروف کرخی (رحمہم اللہ) کی یادگار تھے۔( سیرالاولیاء(فارسی)، باب اول،ص: ۹۱)

 شیخ ابوجعفر مکی قدس اللہ سرہٗ بیان فرماتے ہیںکہ یہ فقیر ایک دن حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ دریائے نیل میں کشتی پر سوارتھا۔اللہ کے محبوب ترین اولیا کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی، اسی درمیان خضر علیہ السلام نے فرمایا :

’’شیخ عبدالقادر جیلانی اور شیخ نظام الدین بدایونی مقام معشوقیت پر فائز تھے۔‘‘

پھر اُنھوں نے فرمایاکہ واللہ!نظام الدین بدایونی اورعبدالقادرجیلانی کے جیسا اولیا میں نہ کوئی آیا اورنہ کوئی آئےگا۔ (بحرالمعانی، ص:۲۱۳-۲۱۴)

غرض کہ جس طرح گلاب کے وجود پر پھلواری رشک کناں رہتی ہے اوراُس سے جوخوشبوئیں نکلتی ہیں وہ بھی رشک آور ہوتی ہیں۔بعینہ سلطان المشائخ کی ذات والا صفات ہے کہ آپ کے وجود مسعود پر ایک طرف ایک کائنات نازاں ہے تو دوسری طرف آپ کے فیضان و برکات کا ٹھاٹھیں مارتا ایک سمندر ہے جس میں اپنے بیگانے، جن وبشر، مردوعورت اورچھوٹے بڑے سبھی غوطہ لگاتے ہیں اور قدرت بھراپنی اپنی مرادیں پاتے ہیں، اور چوں کہ انبیاومرسلین بکمال وتمام اُسوہ حسنہ کے مالک ہوتے ہیں اورعلمائے ربانی انبیاومرسلین کے وارث ہوتے ہیں، لہٰذا سلطان المشائخ اِس لحاظ سے بھی قابل صد رشک ہیں کہ آپ کی زندگی بہرصورت اُسوۂ حسنہ کی عکس جمیل نظر آتی ہے اورہر سطح پر پوری انسانی برادری کے لیے رہبرورہنماکی حیثیت رکھتی ہے۔

ذیل میں آپ کی سیرت وسوانح پر ایک نظر ڈالی جارہی ہے:

اہل خاندان اور اُن کی ہندوستان آمد

’’بخارا‘‘وسط ایشیاکا ایک مشہوراور تاریخی شہرہے۔ یہ شہر ہمیشہ سےعلوم وفنون اور زہدوتقویٰ کا منبع وسرچشمہ رہاہے۔سلطان المشائخ کے اَجدادِکرام خواجہ علی حسین بخاری اور خواجہ عرب بخاری اُسی علمی وتہذیبی شہر کے باشندے تھے۔ نیزدونوں تجارت پیشہ بزرگ تھے اور آپس میں برادرانہ رشتہ بھی رکھتے تھےکہ دونوں کے جداعلیٰ ایک تھے۔جب منگولوں نے ۱۱۱۵ء میں ’’بخارا‘‘پر حملہ کیا اوراُس پر اپنا سکّہ جمالیاتوبہت سےخاندان ’’بخارا‘‘ سے ہجرت کرگئے۔بیشتر خاندان نے ملک ہندوستان کا رُخ کیا کہ اُس وقت ہندوستان دیگر ممالک کے بالمقابل امن وآشتی کا ملک مانا جاتا تھا۔چنانچہ خواجہ علی حسین بخاری اور خواجہ عرب بخاری بھی ہجرت کرکے ہندوستان  پہنچے اور’’لاہور‘‘میں قیام کیا۔اِسی شہر لاہور میں آپ کے والد بزرگوار خواجہ احمدبن خواجہ علی حسین بخاری اور والدہ  حضرت بی بی زلیخا بنت خواجہ عرب بخاری پیدا ہوئیں۔پھرچوں کہ لاہور ایک سرحدی علاقہ تھا اوروہاںآئے دن کچھ نہ کچھ شورشیں اُٹھتی رہتی تھیں اِس لیے کچھ دنوں کے بعدخواجہ علی بخاری اورخواجہ عرب بخاری رحمہمااللہ لاہور سے بھی کوچ کرگئےاور بدایوں پہنچے اورپھرہمیشہ ہمیش کےلیے بدایوں ہی کو اپنا مستقل مسکن ومستقربنالیا۔

بدایوں اُس وقت ریاستی وصوبائی مرکز تھاجہاں ممتاز عمائدین سلطنت،علمائے اُمت اور رہبران شریعت رہتے تھے۔نیزعلوم وفنون اور تربیت وتزکیہ کے لحاظ سےبھی اُسے ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی اوراِسی امتیازی وصف کے سبب بدایوں’’ قبۃ الاسلام‘‘ کہلاتا تھا۔(مقدمہ فوائدالفواد(مترجم)،ص:۳۶)

ولادت باسعادت

خواجہ عرب بخاری علم دوست ہونے کے ساتھ صاحب ثروت بھی تھے، لیکن اولاد کے اعتبار سے غریب واقع ہوئے تھے۔خواجہ عبداللہ نامی ایک ہی صاحبزادہ اور ایک ہی صاحبزادی بی بی زلیخا اُن کے پاس تھیں۔اُدھر خواجہ علی بخاری کے لڑکے خواجہ احمد کی شرافت ونجابت نے خواجہ عرب بخاری کو کافی متاثر کیا اور اُنھوں نے اپنی صاحبزادی بی بی زلیخاکا نکاح خواجہ احمدبن علی حسین بخاری کے ساتھ کردیا، اور پھرایک دن وہ بھی آگیاکہ بی بی زلیخا اور خواجہ احمد کے گلشن ِحیات میں ’’سیدمحمد‘‘کی کلکاریاں گونج اُٹھیں،یعنی ۲۴؍صفر ۶۳۶ھ/ ۴؍ اکتوبر ۱۲۳۸ ء  کو بدھ کے دن ’’بدایوں،محلہ پتنگی ٹولہ‘‘ میں سلطان المشائخ پیدا ہوئے ۔ (نظامی بنسری، ص:۳۸۷)

نام ، لقب اورعرفیت

پیدائشی نام’’محمد‘‘ رکھا گیا، جب کہ لقب و عرف’’نظام الدین‘‘ سے مشہورِعالم ہوئے۔ لقب وعرف کے تعلق سےپروفیسر نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’حضرت برہان الدین غریب (م:۷۳۸ھ/۱۳۳۷ء) نے فرمایا:ہمارے خواجہ نظام الدین ایک دن بدایوں میں اپنے گھر میں بیٹھے تھے، کسی شخص نے آپ کے سامنے آکرآواز دی:مولانا  نظام الدین! حضرت نے سوچاکہ میرا لقب تو’’ نظام الدین‘‘ نہیں ہے، اور اُس گھر میں کوئی دوسرا نظام الدین بھی نہیں ہے، پھر یہ کسے پکار رہا ہے؟ اس کے بعد جب آپ گھر سے باہر نکلے تو جو بھی ملتا تھا، وہ نظام الدین کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ اُس دن سے نظام الدین ہمارے خواجہ کا لقب ہوگیا۔..‘‘

پھر بعدکے زمانےمیں آپ کا لقب نظام الدین والملۃ نظام الاولیاءہوا، اور آخری ترکیب میں سے صرف اولیا اسم مبارک کا جزو بن کر رہ گیا۔’’ نظام الدین اولیا‘‘ کے ساتھ’’ محبوب الٰہی‘‘ بھی اسم مبارک کا ایک حصہ قرار پایا۔

شجرۂ نسب

 آپ نجیب الطرفین حسینی سید ہیں ۔آپ کا شجرۂ نسب پدری اور مادری دونوں چوتھی پشت میںسیدحسن بن سیدمیرعلی تک پہنچتا ہے اور ایک ساتھ ضم ہوجاتا ہے اور پھرمنبع خلائق، جان عالم، سرورکائنات جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے جاملتاہے ۔ مثلاً:

پدری شجرۂ نسب یہ ہے : سید خواجہ احمد بن سید خواجہ علی بن سید عبداللہ بن سید حسن بن سیدمیرعلی...

  مادری شجرۂ نسب یہ ہے  : بی بی زلیخابنت سید خواجہ عرب بن سید محمد بن سید حسن بن سید میرعلی بن سید میر احمد بن سید میر ابی عبداللہ بن سید میر علی اصغر بن سید جعفر بن سید علی امام بن سید علی ہادی تقی بن امام سید محمد جوادبن امام علی موسیٰ رضابن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقربن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن امیر المومنین سیدنا علی و بن سیدہ فاطمہ بنت محمد ﷺ۔( سیرالاولیاء(فارسی)، باب اول، ص:۹۷-۹۸)

 تعلیم وتربیت اور دیگر واقعات

سلطان المشائخ کی والد ہ ایک خداترس خاتون تھیں اور اپنے بابا نظام کے رگ وپے میں بھی خداترسی کی خواہاں تھیں اورآپ کی ذات کو خشیت الٰہی کاایک تناور درخت دیکھنا چاہتی تھیں اس لیے وہ جب بھی اپنے نورنظر سے باتیں کرتیں تو ہمیشہ ایسی ہی باتیں کرتیں جن سے دل میں عشق الٰہی کا جذبہ پیدا ہو، اور دنیا داری کا خاتمہ ہوجائے۔ طفولیت کے زمانےمیں بارہا ایسا ہوتا تھا کہ گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا اور فاقہ کشی پر مجبور ہونا پڑجاتا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ والدہ ماجدہ کا معمول تھا کہ جس دن ہمارے گھر کچھ کھانےپکانے کو نہ ہوتا تو فرماتیں : ’’آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں۔‘‘ مجھے یہ بات سن کر بڑا ذوق آتا۔ ایک دن کوئی اللہ کا بندہ ایک تنکہ غلّہ گھر میں دے گیا، جس سے متواتر کچھ دنوں تک روٹی ملتی رہی، میں تنگ آگیا اور اس آرزو میں رہا کہ والدہ ماجدہ کب یہ فرمائیں گی کہ ’’آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں۔‘‘ آخر وہ غلّہ ختم ہوا، اور والدہ ماجدہ نے فرمایا:’’آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں۔‘‘ یہ سن کر مجھےایسا ذوق اور ایسی فرحت حاصل ہوئی کہ وہ بیان نہیں ہوسکتا۔(سیرالاولیاء(فارسی)، باب اول ، ص:۱۱۳)

سلطان المشائخ نےتقریباً باغ زندگی کی کل پانچ/چھ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور آپ شفقت پدری سے محروم ہوگئے۔ امیرخوردسید محمد کرمانی کے مطابق: سلطان المشائخ ابھی کم سن اور نوعمرہی تھے کہ والد بزرگوار خواجہ احمد بن علی بخاری بیمار پڑگئے اور ایسے سخت بیمار ہوئے کہ اپنے معبودحقیقی سے جاملے اور شہربدایوں میں مدفون ہوئے، اور اس طرح والد بزرگوار کے وصال کے بعد تعلیم وتربیت کی تمام تر ذمہ داری  آپ کی والدہ ماجدہ بی بی زلیخا معروف بہ مائی صاحبہ رحمہا اللہ کے سر آگئی۔چوں کہ آپ کی والدہ ماجدہ بڑی نیک، پاکباز، دین دار، انتہائی باہمت اور باحوصلہ خاتون تھیں اِس لیے غربت و افلاس اور اقتصادی ومالی دقتوں کے باوجوداُنھوں نے آپ کی تعلیم وتربیت کاکامل انتظام فرمایااورحصول تعلیم میں آپ کی ہرممکن معاونت فرمائی۔

آپ کسی قدر بڑے ہوگئے تو آپ کی والدہ ماجدہ نے قرآن کریم پڑھنے کے لیے مکتب میں بٹھایا، اور پھر یہ کہ آپ کا حافظہ قوی اور ذہن سلیم تھا لہٰذاتھوڑی مدت ہی میں قرآن کریم مکمل کرلیا۔ ( سیرالاولیاء(فارسی)، ص:۹۵)

 اِس طرح ناظرہ تعلیم کی تکمیل آپ نے بدایوں کے ایک مشہور اور بزرگ قاری محترم شادی مقری کی نگرانی میں فرمائی۔(خواجہ نظام الدین اولیا،ص: ۵۹)

 اس کے بعدصرف ونحو کی ابتدائی کتابیں بھی محلے ہی کی مسجد میںپڑھیں ۔نیزاَوسط درجے کی کتابوں کا درس بدایوں کے ممتاز علما سے لیا۔اُن میں سب سے نمایاں شخصیت مولانا علاء الدین اصولی کی تھی۔اُن سے دوسری کتابوں کے علاوہ فقہ کی مشہور کتاب ’’قدوری‘‘کادرس بھی لیا۔(مقدمہ فوائدالفواد(مترجم)،ص:۳۹)

دستاربندی اور بشارت عظمیٰ

سلطان المشائخ قدوری جیسی فقہ کی معتبر اور بڑی کتاب ختم کرنے والے تھے کہ شفیق وکریم اُستاذ مولانا علاءالدین اُصولی نے کہا: چوں کہ تم ایک معتبر اور عظیم کتاب مکمل کرنے والے ہو، لہٰذا تمھیں اپنے سر پر دستار باندھنی چاہیے۔جب آپ نے یہ قصہ اپنی مشفقہ والدہ کو بتایاتو اُنھوںنے اپنے دست خاص سے سوت کاتا، اُسے بنوایااور ایک دستار تیارکی۔ پھرآپ نے کتاب مکمل کرلی تو والدہ ماجدہ نے ایک عمدہ دعوت کا اہتمام کیااور چندبزرگان دین اور علمائے اہل یقین کو اُس مبارک تقریب میں مدعو کیا۔اس مبارک تقریب میں شیخ جلال الدین تبریزی (متوفی:۶۴۱ھ) کے مریدخواجہ علی بھی شریک تھے۔یہ اُس وقت کےمشہور ومعروف باکرامت بزرگ تھے۔ جب سب کھانا کھاچکے تو آپ اپنےہاتھ میں دستارلیے تشریف لائے تاکہ تقریب میں موجود  بزرگان دین کے سامنے  دستار بندی کی رسم ادا ہو۔ چنانچہ خواجہ علی نے دستارکا ایک سِرا خود اپنے ہاتھ میں لیا اور دوسرا سِرا آپ کے ہاتھ میں دیا، پھر آپ نے اپنے سر پر دستار باندھی۔اِس سےپہلےآپ نے خواجہ علی رحمہ اللہ کے قدم پر اپنا سرمبارک رکھا، خواجہ علی نے آپ کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں علمائے دین کے زمرے میں شامل کرے اور اعلیٰ ترین مقام عطافرمائے۔اس کے بعد آپ نے محفل میں شریک دوسرے صادقین کی بھی قدم بوسی فرمائی اور اُن بزرگوں سے دعائیںحاصل کیں۔ (سیرالاولیاء(فارسی)، باب :۱، نکتہ:۳،ص:۹۵-۹۶)

خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی بیان کرتے ہیں کہ دستار باندھنے کے بعدسلطان المشائخ نے اپنا سر کئی بار  مولاناکے قدموں پر رکھا۔ علی مولا نےجب یہ ادب و آداب دیکھاتو (مولانا علاء الدین اُصولی سے)ہندوی زبان میںکہا:’’ارے مولانا!یہ بڈا ہوسی۔‘‘یعنی اے مولانا!یہ مردبزرگ ہوگا۔پھر دوبارہ فرمایا:’’یہ نیک اور بزرگ ہوگا۔‘‘ مولانا علاءالدین اُصولی نے اُن سےپوچھا: آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ بزرگ ہوگا۔‘‘ اُنھوں نے  فرمایاکہ میں اس میں دوچیزیں دیکھ رہاہوں، اور ہندوی زبان میں کہا:ایک یہ کہ ’’جو منڈا سا باندھی سوپائن نہ پسری؟‘‘ یعنی جو اپنے سرپر دستار باندھ رکھا ہو وہ کسی کے قدموںپر کیسے گرسکتاہے؟ اوردوسرے یہ کہ اس کی دستار ریشم کی نہیں بلکہ اُس کی دستار سادہ ہے، لہٰذایہ بزرگ ہوگا۔ (خیرالمجالس (فارسی)،مجلس: ۵۶)

اورخواجہ علی مولا کی بشارت اوراُن کی دعاکی تکمیل یوں ہوئی کہ سلطان المشائخ نےعلم وعرفان اور تزکیہ و تصفیہ کی ایک ایسی نہر جاری فرمائی کہ جس میں شاہ وگدا، اَمیر وغریب اورسیہ کار وگنہگارسبھی اُس زمانے میں بھی غوطہ لگاتے تھے اور آج بھی غوطہ لگاتے ہیں اور طہارت وتقویٰ کی اعلیٰ ترین نعمت پاکر باہر نکلتے ہیں۔

دستارکے بعد بھی سلطان المشائخ نےبدایوں میں مزید تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اورمولانا علاء الدین اصولی رحمہ اللہ سےعلم لغت کی تعلیم حاصل فرمائی۔

مشائخ بدایوں سےاستفادہ

سلطان المشائخ قدس سرہٗ بدایوں میں تقریباً سولہ سال کی عمرتک حصول تعلیم میں مشغول رہے، اور اِس دوران آپ نے موقع بہ موقع وہاں کے متعدد علماو مشائخ سے استفادہ بھی فرمایا، مثلاً:

۱۔شیخ نظام الدین ابوالمو ید(متوفی:۶۷۲ھ): عظیم بزرگ اورمستجاب الدعوات درویش تھے۔ان کی بزرگی سے متعلق سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک بار برسات نہیں ہوئی۔ اُن سے اصرار کیا گیا کہ بارش کے لیے  دعا فرمائیں۔ وہ منبرپرآئے۔ بارش کی دعا پڑھی اور آسمان کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا:یااللہ! اگر تونے بارش نہ برسائی تو میں آئندہ کسی آبادی میں نہیں رہوں گا۔‘‘ اور منبر سے اُتر آئے۔ اللہ تعالیٰ نے رحمت کی بارش فرمادی۔اس کے بعد سید قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے ملاقات کی اور یہ بات کہی کہ ہمارا آپ کے بارے میں پختہ اعتقاد ہے اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کوحق تعالیٰ سے پورا نیاز حاصل ہے۔ لیکن یہ آپ نے کیا کہاکہ اگر تو نے بارش نہ برسائی تومیں آئندہ کسی آبادی میں نہیں رہوںگا۔ اگربارش نہ ہوتی تو آپ کیا کرتے؟شیخ نظام الدین ابوالموید نے کہاکہ میں جانتا تھا کہ اللہ بارش برسائےگا۔ اس پر سید قطب الدین نے دریافت کیاکہ آپ یہ کیسے جانتے تھے؟ بولے کہ ایک بار میرسید نورالدین مبارک نوراللہ مرقدہٗ سے شمس الدین (التمش) کے سامنے اونچی اور نیچی جگہ بیٹھنے کے لیےجھگڑا ہوا تھا۔ میں نے ایسی باتیں کہی تھیں جن سے ان کو تکلیف ہوئی تھی۔ جس وقت مجھ سے بارش کی دعا کے لیے کہا گیا تو میں اُن کے روضےپر گیا اورکہاکہ مجھ سے بارش کی دعا کے لیے کہا گیاہے اور آپ مجھ سے رنجیدہ ہیں۔ اگر آپ مجھ سے راضی ہوجائیںتو میں دعا مانگوں اور اگر آپ راضی نہیں ہوں گے تو میں دعا نہیں مانگ سکوںگا۔ اُن کے روضے سے آواز آئی کہ میں نے آپ سے صلح کرلیا،آپ جائیں اور دعا مانگیں۔(فوائد افواد، جلد:۴، مجلس:۴۶)شیخ نظام الدین انتہائی اچھے واعظ بھی تھے اور اُن کا وعظ بڑا ہی پُرتاثیر ہوتا تھا۔ایک بار خواجہ امیر حسن سجزی نے سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ آپ نے اُن کا وعظ سنا ہے؟ فرمایاکہ ہاں! لیکن میں اُن دنوں بچہ تھا۔ معانی کی سمجھ کچھ خاطر خواہ نہیں تھی۔ ایک دن اُن کے وعظ میں پہنچا تو اُنھیں دیکھا کہ مسجد میں آئے اور جوتیاں جو پیروں میں پہن رکھی تھیں، اُتار کر ہاتھ میں لے لیں اور مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے کسی کو نماز میں اُن کی طرح نہیں دیکھا۔ دورکعتیں بڑے آرام سے پڑھیں اور منبر پر تشریف لے گئے۔ ایک قاری تھے جنھیںقاسم کہتے تھے، اچھا پڑھتے تھے۔اُنھوں نے ایک آیت پڑھی۔

اس کے بعد شیخ نظام الدین ابوالمؤید نے آغاز فرمایا(اور ایک رباعی یہ کہہ کر پڑھی)کہ میں نےاپنے بابا کے ہاتھ سےلکھا ہوا دیکھاہے۔ ابھی اُنھوں نے دوسرا فقرہ بھی نہیں کہا تھاکہ پہلے فقرے ہی کا لوگوں پر ایسا اثر ہواکہ سب رونے لگے۔اُس وقت اُنھوں نے  دومصرعے پڑھے:

میں تمھیں اور تمہارے عشق کو دیکھوںگا اور تمہارے غم میں اپنی جان کو زیر وزبر کردوں گا۔

۲۔قاضی القضاۃ قاضی منہاج سراج(۶۴۳- ۷۱۲ھ):قاضی موصوف خلیق انسان، جلیل القدر درویش اور مشہور زمانہ عالم وفاضل تھے۔ وجد وسماع کاخاصہ ذوق رکھتے تھے۔ جب آپ قاضی شہر ہوئے تو سماع کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔خواجہ امیر حسن سجزی رحمہ اللہ کابیان ہےکہ سلطان المشائخ فرماتے ہیںکہ قاضی منہاج بڑے صاحب ذوق انسان تھے۔ ایک بار شیخ بدرالدین غزنوی رحمہ اللہ کے گھر اُنھیں بلایا گیا اور وہ دن سوموارکا تھا۔ اُنھوں نے وعدہ کیا کہ وعظ سے فراغت کے بعد آجاؤںگا۔ غرض کہ جب وعظ سے فراغت مل گئی تو وہاں پہنچے اور محفل سماع میں شریک ہوئے اور دستار اور لبادہ جو پہن رکھا تھااُسےٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اُس وقت شیخ بدرالدین غزنوی کی نظم جو اُنھوں نے ’’آتش گرفت‘‘ کی ردیف میں کہی ہے، وہ پڑھی جارہی تھی، اور ایک دوشعر زبان سے ارشاد فرمائے، اُن میں سے یہ شعر یاد رہ گیا:؎

ترجمہ: ایک نوحہ گر لوگوں کے سامنے مجھ پر نوحہ کررہا تھا۔ آہ! اُس سے میرا سوز ایسا نکلاکہ نوحہ گر کے اندر بھی آگ بھڑک اٹھی۔

قاضی منہاج پیر کے دن وعظ بھی دیا کرتے تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں تقریباً ہمیشہ اُن کی مجلس وعظ میں جایا کرتا تھا۔ ایک دن میں حاضر ہواتواُنھوں نے یہ شعر پڑھا:

ترجمہ:حسین معشوقوں کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھنا اور اُن کے بکھرے زلفوں سے کھیلنا آج تو بہت اچھا لگتا ہےلیکن کل اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔جب خود کو گھاس کی مانند آگ (جہنم) کا لقمہ بنانا ہوگا۔

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ یہ اشعار کچھ اس طرح پڑھے کہ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور بڑی دیر تک میں بے خود رہا۔

غرض کہ قاضی منہاج سراج فقط ایک صاحب ذوق مرد اور سماع کے دلدادہ نہ تھے بلکہ وہ ایک تجربہ کار شخص اور وسیع النظر انسان اور اُمور مملکت میں پوری دسترس رکھنے والے تھے۔

۳۔ خواجہ شاہی موئے تاب:بدایوں کے مشہور مجذوب درویشوں میں سے ایک تھے۔ قاضی حمید الدین ناگوری شیخ شاہی موئے تاب کو ’’روشن ضمیر‘‘ کہا کرتے تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیںکہ بدایوں میں ایک بزرگ تھے جن کو شیخ شاہی موئے تاب رحمۃ اللہ علیہ کہا جاتا تھا۔ ایک دفعہ اُن کے دوست اُنھیں سیر و تفریح پر باہرلے گئے  اور کھیر پکائی۔ جب کھانا سامنے لگایا گیا تو خواجہ شاہی موئے تاب بولے کہ اس کھانے میں خیانت ہوئی ہے۔ شاید دو آدمیوں نے اس میں سے کچھ دودھ دوستوں کے سامنے لانے سے پہلے پی لیا تھا اور یہ درویشوں میں بڑی خطا  سمجھی جاتی تھی۔غرض کہ جب خواجہ شاہی نے کہاکہ ایسا کیوں ہواکہ دوستوں کے سامنے کھانا لانے سے پہلے کسی نے  اس میں سے کچھ کھالیا، تو وہ بولےکہ دیگ میں سے دودھ ابل کر باہر گر رہا تھا۔ ہم نے تو باہر گرنے والے دودھ کو لیا ہے اس کا کیا کرتے، گرنے دیتے؟ ناچار اُسے پی لیا۔ خواجہ شاہی نے کہا کہ نہیں!!اس طرح سے دودھ پینا غلط تھا، بہتا تھا تو بہنے دیتے۔ چنانچہ اُن کا یہ عذر نہیں سنا گیا، وہ پیچھے چلے گئے۔ وہاں دھوپ تھی۔ دھوپ میں کھڑے ہوگئے۔  یہاں تک کہ اُن کا پسینہ بہہ بہہ کر گرنے لگا۔اُس وقت خواجہ شاہی نے کہاکہ حجام بلاؤ۔ پوچھا گیا کہ آپ کیا کریںگے؟ جواب دیاکہ جس قدر پسینہ میرے دوستوں کا بہا ہے، ا س سے کہوںگاکہ اتنا خون میرا نکال دے۔

سلطان المشائخ جب اس بات پر پہنچے تو فرمایاکہ شاباش!! محبت ہوتو ایسی ہو، اور انصاف کا خیال رکھا جائے تو اس طرح رکھا جائے۔(فوائد الفواد، جلد:۳،مجلس:۲)

 وہ کس بلند پایہ بزرگ تھے اس تعلق سےسلطان المشائخ ایک حکایت بیان فرماتے ہیںکہ ایک دفعہ شیخ نظام ا لدین ابوالمؤید رحمۃ اللہ علیہ کو بیماری لاحق ہوئی تو اُنھوں نے خواجہ شاہی موئے تاب کو بلوایااورکہاکہ کچھ دعا کرو کہ میری صحت اچھی ہوجائے۔ خواجہ شاہی نے کہاکہ آپ تو خود بزرگ ہیں، مجھ سے یہ فرمائش کیوں کررہے ہیں؟ میں تو ایک بازارو آدمی ہوںمجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہیں۔شیخ نظام نے اُن کی ایک نہ سنی اور کہاکہ تم دعا کرواور توجہ کرو تاکہ میں صحت پاجاؤں۔ خواجہ شاہی بولے کہ اچھا تو پھر میرے دو دوستوں کو بھی بلالیجیے۔ اُن میں سے ایک کا لقب شرف تھا جو بڑا صالح مرد تھا اور دوسرا ایک درزی تھا۔ غرض کہ دونوں بلائے گئے۔ خواجہ شاہی اُن دونوں سے بولے کہ شیخ نظام الدین نے مجھے اس کام کا حکم دیا ہے، اب تم میرا ساتھ دو۔ شیخ کے سر سے سینے تک میرے ذمے، نیچے کے اعضا سینے سے ایک پاؤں تک ایک کے ذمے اور دوسرے پیر تک دوسرے کے ذمے۔ اس طرح اُن تینوں نے توجہ دینی شروع کی اور شیخ نظام الدین کی بیماری صحت میں بدل گئی۔( فوائد الفواد، جلد:۳، مجلس:۲)

بدایوں میں مخلوق کی ایک بڑی تعداد خواجہ شاہی کی طرف رجوع کرتی تھی۔سب لوگ اُن کے پاس عقیدت سے آتے تھے، اور جہاں بھی جاتے بھیڑ لگ جاتی تھی۔ شیخ شاہی کا رنگ سیاہ تھا۔ اسی زمانے میں ایک درویش مسعود نخاسی بدایوں میں رہتے تھے۔جب وہ خواجہ شاہی کو مجمع اور بھیڑ کے ساتھ دیکھتے تو کہتے :

 ’’ کلو میاں! تم نے حمام خوب گرم کررکھا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جل جاؤ۔‘‘

اور ایک دن ہوا بھی ایسا ہی کہ خواجہ شاہی موئے تاب رحمۃ اللہ علیہ ایام جوانی میں جل گئے اور اُسی کے سبب ۶۳۲ھ/۱۲۴۳ء میں فوت ہوئے۔( فوائد الفواد، جلد:۴مجلس:۳۶ )

۴۔ خواجہ عزیز کرکی: باکمال درویش اور بدایوں کے کوتوال تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیںکہ درویشوں کا نیاز مندبڑا ہی خوب شخص تھا۔وہ کرک کے رہنے والے تھے، اسی لیے کرکی کہلائے۔ شیخ ضیاء الدین کا مرید تھےجو بدایوں میں رہتے تھے۔ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سردی کی راتوں میں گرم تنور کے اندر اترجاتے اور دوسرے دن صبح باہر نکلتے تھے۔

مزید فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بدایوں کی امریوں(آموںکے باغوں) کی طرف جسے لکھی آلو کہتے ہیں، گیا ہوا تھا۔ یہ عزیز کوتوال ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور دسترخوان بچھا رکھا تھا۔ جب اُس نےمجھے دور سے دیکھا تو آواز دی اور کہاکہ مرحباآئیے!میں ڈرنے لگاکہ کہیں تکلیف نہ پہنچائے۔ جب میں اُس کے پاس گیا تو مجھےپوری تعظیم کے ساتھ اپنے پہلو میں بٹھایا۔ کھانا کھاکر میں واپس آگیا۔(فوائد الفواد، جلد:۴مجلس:۳۶ )

اِن مشائخ عظام کے علاوہ بھی آپ نےدیگر معروف وغیر معروف قدسی صفات بزرگوں اور مجاذیب سے ملاقات کی اوراُن کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا۔مثلاً: خواجہ مسعود نخاسی، شیخ ابوبکر موئےتاب، عزیز بشیر، شیخ شوریدہ وغیرہ۔ اِن تمام بزرگوں کا تذکرہ فوائدالفواد میں ملتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی کا سفر

سلطان المشائخ نےبدایوں میںناظرہ سےابتدائی فقہ اور علم لغت تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ۶۵۲ھ/۱۲۵۴ء میں ’’دہلی‘‘ کارُخ کیا جو علم وفضل اور کمال وہنرکاممتازمرکز بناہوا تھااور یوںسولہ سال کی عمر میں آپ بدایوں سےدہلی آگئے۔(سیرالاولیاء(فارسی)، باب اول،ص:۹۷-۹۸  )

 جس عہد میں آپ دہلی پہنچے وہاں سلطان ناصرالدین محمود کی حکومت قائم تھی اور غیاث الدین بلبن عہدۂ وزارت پر فائز تھا۔ اُس وقت دہلی میں بڑے بڑے نامور اَساتذۂ فن موجود تھے۔ اُن میں شمس الملک مولانا شمس الدین استاذ الاساتذہ کی حیثیت رکھتے تھےاور سلطنت کے اہم ترین امور میں مصروفیت ومشغولیت کے باوجود اُس زمانے کے علما کی طرح درس وتدریس کا مشغلہ بھی جاری رکھے ہوئےتھے،چنانچہ آپ حضرت مولاناشمس الدین کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے اوراُن سے خوب علمی و فنی استفادہ کیا،مثلاًاُن سے ’’مقامات حریری‘‘ پڑھی جو عربی ادب کی مشہور ترین کتاب ہے اور قاسم بن علی بن محمد حریری بصری کی تصنیف لطیف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ماہرحدیث وحیدعصر مولانا کمال الدین زاہدرحمہ اللہ(۶۸۴ھ) سے ’’مشارق الانوار‘‘ پڑھی جوایک ہندوستانی عالم مولانا رضی الدین صغانی (م:۶۵۰ھ/۱۲۵۲ء) کا مرتب کردہ عظیم مجموعہ ہے۔یہ اولین ایسا مجموعہ ہے جس میں ’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ سے حذف اسناد کے ساتھ دوہزار دوسو چھیالیس (۲۲۴۶) احادیث جمع ہیں۔ ’’مشارق الانوار‘‘بر صغیرمیں اپنے زمانے کا بہت ہی معروف ومشہور اور معتبرو معتمد مجموعہ ہے۔ (آب کوثر، ص:۲۲۹)

 سلطان المشائخ نےدہلی میں تقریباًتین- چار سال تک مسلسل حصول تعلیم کے لیے جد وجہد کیا اور تمام علوم متداولہ میں بکمال و تمام وافر حصہ پایا۔ یہاں تک کہ دورانِ طالب علمی ہی میںآپ ’’بحاث ‘‘اور’’محفل شکن‘‘ جیسے مقتدر خطابات سے مشہورو معروف ہوگئےتھے۔(سیرالاولیاء(فارسی)، ص:۱۰۱)

شیخ کبیر بابافرید سے تحصیل علم

سلطان المشائخ نے کچھ کتابوں کادرس باضابطہ طورپر شیخ الاسلام فرید الدین گنج شکرسے بھی لیا۔آپ خود بیان فرماتے ہیں کہ میں نے چھ سیپارے شیخ کبیر قدس اللہ سرہٗ العزیز سے پڑھے ہیں اورتین کتابیں اور بھی پڑ ھی ہیں۔ایک کتاب کو سنا ہے اور دوپڑھی ہیں۔ جس دن میں نے یہ درخواست کی کہ میں آپ سے قرآن پڑھنا چاہتا ہوں تو فرمایاکہ پڑھو۔ اس کے بعد جمعہ کے دن عصر کے وقت تک جب کہ فرصت رہتی تھی، میں کچھ پڑھا کرتا۔ غرض کہ چھ سیپارے شیخ سے پڑھ لیے۔ جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو مجھ سے فرمایاکہ اَلْحَمْدُلِلہِ  پڑھو۔ جب میں نے پڑھنا شروع کیا اور وَلَاالضَّالِّیْنَ پر پہنچا تو فرمایاکہ ’’ضاد‘‘ کو اِس طرح پڑھوجیسے میں پڑھتا ہوں۔ ہرچند کہ میں نے چاہاکہ اسی طرح پڑھوں جیسے شیخ پڑھ رہےہیں، لیکن نہ ہوسکا۔ پھر فرمایاکہ کیسی فصاحت اور بلاغت تھی۔ حضرت ’’ضاد‘‘ کو اِس طرح پڑھتے تھے کہ کوئی اور نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اس وقت فرمایاکہ ’’ضاد‘‘ خاص رسول علیہ السلام پر نازل ہواہے۔دوسروں کے لیے نہیں تھا۔ پھر فرمایاکہ رسول علیہ السلام کو ’’رسول الضاد‘‘ کہتے ہیں۔پھر اِن الفاظ میں ذکر فرمایاکہ ’’رسول الضاد‘‘ یعنی وہ جن پر ’’ضاد‘‘ نازل ہوا۔ واللہ اعلم

پھرشیخ شہاب الدین سہروردی(متوفی:۶۳۲ھ) کی مشہورتصنیف ’’عوارف المعارف‘‘کے چھ ابواب اورعقائد میں حضرت ابوشکور محمد بن عبدالسعید سالمی کی کتاب’’التمہید فی بیان التوحید‘‘ اول سے آخر تک سبق در سبق آپ نے شیخ کبیربابافرید قدس سرہٗ سےپڑھی۔ اس کے علاوہ شیخ حمید الدین ناگوری (م:۶۴۳ھ/ ۱۲۵۴ء) کی تصنیف ’’لوائح‘‘کا درس بھی اُن سے لیا۔(مقدمہ فوائد الفواد(مترجم)، ص:۶۳)

شیخ کبیر اور لذت حسن بیاں

شیخ کبیر کے درس میں آپ کو جو لذت ولطف ملتا تھا ایک زمانہ گزرجانے کے بعد بھی آپ اُسے محسوس کرتے رہے۔ فرماتے ہیں :میں نے عوارف کے پانچ ابواب شیخ کبیر فرید الدین سے پڑھے ہیں۔ آپ جو نکات اور حقائق و معارف بیان فرماتے تھے اس طرح کا بیان کسی اور سے ہر گز ممکن نہیں۔ بارہا لوگ شیخ کے حسن بیان میں پوری طرح سے محو ہوجاتے،اور دل چاہتا کہ اگر اُسی وقت دم نکل جائے تو بڑا ہی اچھا ہو۔پیر ومرشد سے درس لینے کایہ واقعہ میرے خیال سےپہلے سفر میں ہی پیش آیا ہوگا۔

ملازمت کا ارادہ اور شیخ متوکل کا جواب

چوں کہ سلطان المشائخ کےگھریلوحالات انتہائی عسرت میں گزر رہےتھے،اس لیے جب آپ نے اپنا رسمی تعلیمی کورس مکمل کرلیا تو والدہ ماجدہ نے آپ سےفرمایاکہ جاؤ اب ملازمت کے لیے کوشش کرو،تاکہ گھریلو حالات میں کچھ آسانی پیدا ہوجائے اور معاشی تنگی دورہو۔

سلطان المشائخ فرماتے ہیں: ایک دن میں شیخ نجیب الدین متوکل کی خدمت بیٹھا تھا۔ میں اُن سے مخاطب ہوا، اور عرض کیاکہ ایک مرتبہ اس نیت سے سورہ فاتحہ پڑھیں کہ میں قاضی بن جاؤں۔ شیخ نجیب الدین خاموش رہے ۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید سن نہیں پائے ہیں۔ دوسری بار عرض کیا کہ ایک مرتبہ اس مقصد سے سورہ فاتحہ پڑھیں کہ میں کسی جگہ کا قاضی بن جاؤں۔ پھر بھی اُنھوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر جب میں نے تیسری بار عرض کیا تو اُنھوں نےمسکراتے ہوئے فرمایا:’’قاضی مشو چیزی دیگر شو۔‘‘ یعنی قاضی نہ بنو کچھ اور بنو۔

یہ سن کر آپ نےفرمایا کہ شیخ نجیب الدین متوکل کو قضا کے کام سے کس قدر نفرت تھی کہ اس کے لیے فاتحہ پڑھنا بھی گوارا نہ کیا۔ اُس کے بعد آپ نے بھی عہدۂ قضا(جسٹس بننے) کا خیال دل سے بالکل نکال دیا۔

 شیخ کبیر بابا فرید سے غائبانہ عشق

 سلطان المشائخ قدس سرہٗ جب بدایوں میں زیر تعلیم تھےتواُسی زمانے میں آپ کو شیخ کبیر بابا فرید سے جنون کی حد تک عشق ہوگیا۔اِس تعلق سے آپ نے خودہی تفصیل سے ذکر فرمایاہے،اُس کا خلاصہ یہ ہےکہ میں کم و بیش بارہ سال کارہاہوںگا۔ لغت پڑھتا تھا۔ ابوبکرخراط (قوال) نامی ایک شخص میرے استاذکی خدمت میں آیا اوراُس نے شیخ بہاءالدین زکریاملتانی رحمہ اللہ کے مناقب بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے یہاں کی چکی پیسنے والی خادمائیں بھی ذکر کرتی ہیںاور اسی طرح کی بہت ساری اچھی اچھی باتیں بیان کیں مگر میرے دل پر اِس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ اُس نےپھر کہنا شروع کیا کہ میں وہاں سے اجودھن گیا اورایسے ایسے بادشاہ (بابافرید)کو دیکھا۔

 غرض کہ شیخ فرید الدین قدس سرہٗ کے مناقب سنے تو میرے دل میں اُن کی سچی محبت اور ارادت بیٹھ گئی۔ حال یہ ہوگیا کہ ہر نماز کے بعد میں دس بار کہتا: شیخ فریدالدین اور دس بار کہتا: مولانا فریدالدین۔ پھر یہ محبت ایسی بڑھی کہ میرے سارے دوستوں کو خبر ہوگئی اور یہ ہونے لگاکہ اگر مجھ سے کچھ پوچھتے اور چاہتے کہ مجھے قسم دیں تو کہتے: شیخ فرید کی قسم کھاؤ۔(فوائد الفواد، جلد:۴، مجلس:۲۲)

پھربدایوں سےدہلی سفر کے دوران عوض نامی ایک بوڑھے شخص ہمراہی رہے۔ راستے میں اگر شیر، چوراور اُچکےکا خطرہ لاحق ہوتاتو وہ کہتے: اے پیر! تشریف لائیں اور اے پیر!ہم آپ کی پناہ میں یہ دشوارگزار گھاٹیاں طے کررہے ہیں۔ میں نےاُن سے دریافت کیا کہ پیر سے آپ کی مراد کیا ہے؟تو اُنھوں نے جواب دیاکہ میں شیخ شیوخ العالم فریدالدین سے کہہ رہا ہوں۔ یہ سن کر میرے دل میں شیخ شیوخ العالم کی محبت اور زور پکڑگئی۔غرض کہ ہم دہلی پہنچےاور شیخ کے برادر اَصغر شیخ نجیب الدین متوکل رحمہ اللہ کے پڑوس میں اترے۔ شیخ نجیب الدین متوکل رحمہ اللہ کی صحبت و سنگت نے بھی شیخ کبیر کی محبت کے اضافے و استحکام میں سونے پہ سہاگہ کا کام کیا اوروہ آپ کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئے کہ اُنھوں نے آپ کی مشفقانہ سرپرستی فرمائی۔ پھر اُن کے بےنظیر کردار، خداترسی، توکل و استغنا، شان فقر و درویشی اور تحصیل علم کے شوق نے آپ کی ذہنی تربیت اور تشکیل مزاج میں بڑا اہم کردارادا کیا۔ 

دہلی سفر کی یہ حکایت سلطان المشائخ نے خواجہ امیر حسن سجزی سے بھی بیان فرمائی جس میں اتنا اضافہ ہےکہ اِس سفر میں ایک دوسرے شخص بھی ساتھ رہے جن کا نام مولانا حسین خنداں تھا، اوربقول سلطان المشائخ: ’’مقصود این حکایت این مقررشد کہ چون خداتعالیٰ این دولت روزی می کند، این چنین اسباب پیدا می شود۔‘‘

یعنی اِس حکایت کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دولت قسمت میں لکھی تھی ، اس لیے اس طرح کے اسباب پیدا ہوگئے۔

دورانِ تعلیم بےچینی اور اضطرابی کیفیت

اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطان المشائخ پورے انہماک سے طلب علم میں مصروف تھےاور ہر طرح کی سستی اور کاہلی سے پاک و صاف تھے لیکن اس کے باوجود آپ کا دل مضطرب رہتااور طبیعت اکثر وبیشتر متوحش ہوجاتی تھی۔ ایک دن فرمایا کہ جوانی کے دنوں میںجب لوگوں کے ساتھ میرااُٹھنا بیٹھنا تھا، ہمیشہ دل پر مجھے گرانی محسوس ہوتی تھی باوجودیکہ میں سب کے ساتھ حصول علم اور بحث و مباحثہ میں مشغول رہتا۔ میں دوستوں سے اکثرکہاکرتا تھاکہ میں ہمیشہ تمہارے درمیان نہیں رہوںگا، میں کچھ ہی دنوں تک تمہارے یہاں کا مہمان ہوں۔

 خواجہ امیر حسن بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یہ قصہ شیخ الاسلام فرید الدین کی خدمت میںحاضر ہونے سے پہلے کا ہے؟ فرمایا: ہاں!( تاریخ دعوت وعزیمت،جلد:۳،باب:۲،ص:۵۸)

سلطان المشائخ کے اساتذہ

۱۔ شادی مقری: مشہور عالم خواجگی مقری لاہوری کےمرید صادق تھے اور قراءت سبعہ کے ماہرتھے۔ صاحب دل اور ولی صفت انسان تھے۔ اُن سےجو کوئی بھی ایک صفحہ قرآن پڑھ لیتا تھا اُسے حفظ قرآن کی دولت نصیب ہوجاتی تھی۔جیساکہ سلطان المشائخ فرماتے ہیں:

شادی مقری کو سات قرأتوں کے ساتھ قرآن یاد تھا۔باصلاحیت اور صاحب کرامت تھے۔اُن کی ایک کرامت یہ تھی کہ جو بھی اُن سے ایک صفحہ قرآن پڑھ لیتااللہ تعالیٰ اُسے پورا قرآن پڑھنامیسرفرماتا۔ میں نے بھی اُن سے ایک سیپارہ پڑھا تھااور اُس کی برکت سے قرآن یاد ہوگیا۔شادی مقری کا وصال ۶۵۸ھ کو بدایو ں میں ہوا۔

۲۔ مولانا علاءالدین اصولی:نہایت زندہ دل اور صاف دل آدمی تھے۔ البتہ! اُنھوں نے کسی کا ہاتھ نہیں پکڑاتھا۔ اگر کسی سے مرید ہوجاتے تو کامل حال شیخ ہوتے۔ جس وقت مولانا علاءالدین بچے تھے اور بدایوں کی گلیوں میں سے کسی گلی میں جارہے تھےتو شیخ جلال الدین تبریزی گھر کی دہلیز پر بیٹھے تھے۔جب اُن کی نظر مولاناپر  پڑی تو اُن کو بلایا اور جولباس خود شیخ تبریزی پہنے ہوئے تھے،وہ اُن کوپہنادیا۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ (مولانا اصولی کے) سارے اوصاف اور اخلاق اُسی کی برکت سے تھے۔

مزید مولانا علاء الدین کی دانشمندی اور بحث کے دوران انصاف پیش نظر رکھنے کی بابت سلطان المشائخ  فرماتے ہیںکہ اگر کوئی مشکل لفظ آتا، یا اس کےکسی نکتے کا جواب دیتے تو یہ بھی کہتے کہ میری تسلی کے مطابق یہ معنی حل نہیں ہوئے ہیں۔اس کے بارے میں کہیں اور بھی بحث وتحقیق کرلینا۔ یہ کیسے انصاف کی بات ہے!! کچھ ایسے ہی معنی کی مناسبت سے ایک حکایت بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار مولانا علاءالدین ایک نسخے کا مقابلہ کررہے تھے۔ ایک نسخہ اُن کے ہاتھ میں تھا اور ایک نسخہ میرے ہاتھ میں، کبھی وہ پڑھتےمیں دیکھتا ، اور کبھی میں پڑھتا وہ دیکھتے۔ شروع میں یہ ہوتا رہا۔ پھر میں ایک مصرع پر پہنچا جو ناموزوں بھی تھا اور اُس کے معنی بھی نہ نکلتے تھے۔ اس کے بارے میں بہت غور وفکر کیا مگر مشکل حل نہ ہوئی۔ اس درمیان ایک شخص جن کو مولانا ملک یار کہتے تھے، وہ آگئے۔ مولانا علاءالدین اصولی نے کہاکہ اس مصرعے کی صحت اُن سے پوچھیں گے۔ اس کے بعد یہ مصرع مولانا ملک یار کو سنایا اور اُنھوں نے مصرع جس طرح پڑھا، وہ موزوں بھی تھا اور بامعنی بھی۔ دل کو اطمینان ہوگیا۔ اس کے بعد مولانا علاءالدین نے مجھ سے کہاکہ ملک یار نے یہ بات اپنے ذوق کی بنا پر کہی ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ذوق کے معنی اُس دن مجھے سمجھ میں آئے، میں صرف ذوق حسی سے واقف تھا، اس دن معلوم ہواکہ معنوی ذوق کیا ہوتا ہے۔( فوائدالفواد، جلد:۴، مجلس:۳۴ )

۳۔ شمس الملک مولانا شمس الدین : اصل نام عبدالرحمٰن تھا،شمس الدین سے مشہور تھے، جب کہ شمس الملک لقب پایا۔ یکتائے روزگاراورباکمال عالم تھے اور انتہائی خلیق وظریف انسان تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیںکہ شمس الملک رحمہ اللہ کا طریقہ تھا کہ اگر اُن کا کوئی شاگرد ناغہ کرتا / اُن کا کوئی دوست مدتوں کے بعد آتا تو وہ کہتے کہ میں نےکیاایسا کیاتھا کہ تم نہیں آئے۔پھر تبسم کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر کسی سے خوش طبعی کرتے تب بھی یہی کہتے کہ میں نے کیا ایسا کیاکہ تم نہیں آئے۔کچھ بتاؤ تو سہی کہ میں پھر وہی کروں۔

اس کے بعد آپ نے فرمایاکہ اگر میری غیر حاضری ہوتی یا میں دیر سے پہنچتا تو میں سوچتا کہ مجھے بھی ایسا ہی کچھ کہیںگے مگر مجھ سے کہتے :

ترجمہ: آخراتنا تو کرو کہ کبھی کبھی آؤ اور ہم پر ایک نگاہِ توجہ ڈال جاؤ۔

یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور(اُن کے اِس محبتانہ ومشفقانہ انداز و اطوارکو یاد کرکے ) رونے لگے۔

شاگرد ہونے کے باوجود شمس الملک، آپ کو بڑی قدروعزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک بار حاضرین میں سے کسی نے پوچھاکہ جس زمانے میں آپ شمس الملک کے پاس جایا کرتے تھے،وہ آپ کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اُن کے لیے جو جگہ خاص تھی وہاں آپ کو بٹھاتے تھے، (کیا یہ سچ ہے؟)آپ نے فرمایا: ہاں! چھجے پر جہاں وہ بیٹھتے تھےوہاں قاضی فخرالدین ناقلہ/مولانا برہان الدین باقی کے سوا کوئی نہیں بیٹھ سکتاتھا۔ لیکن مجھ سے خاص اُسی جگہ کے لیے کہتےکہ بیٹھو۔ میں کہتاکہ وہ تو آپ کی جگہ ہے مگر وہ کوئی عذر نہ سنتے اور مجھے لازماً اُسی جگہ بٹھاتے۔ حضرت شمس الملک اُس زمانے میں مستوفی(Accountant)کے عہد پر بھی فائز رہے۔(فوائد الفواد، جلد:۲، مجلس:۲۲ )

۴۔مولانا کمال الدین زاہد:باکمال تقویٰ وطہارت اور دیانتداری جیسے اوصاف سے بخوبی متصف تھے اور نابغۂ روزگار محدث تھے۔علم فقہ میں بھی باکمال و صاحب درک تھے کہ آپ کا سلسلہ تلمذ ایک واسطے سےفقیہ اعظم علامہ برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ رحمہ اللہ تک پہنچتاہے۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:

غیاث الدین بلبن کی خواہش و تمنا تھی کہ وہ مولانا کمال الدین کو امام مقرر کرے اور اُن کی امامت میں نماز ادا کیا کرے۔ اسی کے پیش نظر مولانا کمال الدین کو بلایا اور اُن سے کہا کہ آپ کے علمی کمالات وفضائل اور دیانتداری پر پختہ یقین واعتقاد ہے۔ برائے کرم امامت کا عہدہ قبول فرمالیں تو میں آپ کا ممنون رہوںگااور مجھے اپنے نماز کے قبول ہونے پر پورا یقین ہوجائےگا۔حضرت مولانا کمال الدین نے جواب دیا کہ میرے پاس توایک ہی نمازباقی رہ گئی ہے، اب میرے پاس کچھ نہیں بچاہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ یہ بھی میرے پاس نہیں رہے؟یہ جواب مولانا کمال الدین نے کچھ اِس بارعب اور پُرجلال انداز میں دیا کہ سلطان غیاث الدین خاموش ہوگیااور پھر معذرت چاہتے ہوئے مولانا کمال الدین کو رخصت کردیا۔( اخبار الاخیار(فارسی)، طبقہ:۲، ص:۱۳۷)

مولانا موصوف کا اصل نام محمد بن احمد ماریکلی تھا لیکن مولانا کمال الدین زاہد کے نام سے مشہورِزمانہ تھے ۔ ان کا وصال ۶۸۴ھ/۱۲۵۸ء میں ہوا۔

۵۔ مولانا امین الدین محدث تبریزی:سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جب کیقباد (سلطان معزالدین)نے کیلوکہری میں سکونت اختیار کی اور لوگوں کی آمد و رفت اس طرف بکثرت ہونے لگی،تب مجھ کو خیال ہوا کہ اب یہاں سے چلے جانا چاہیے اور سوچا کہ کل جو میں اپنے استاذ مولانا امین الدین محدث کی فاتحہ سوم میں شریک ہونے جاؤںگا تو شہر ہی میں رہ جاؤںگا۔(در رنظامی موسوم بہ گفتار محبوب، باب:۲۱،عزلت نشینی کے بیان میں، ص:۱۸۸)

 مولانا امین الدین محدث تبریزی کےتعلق سےمجھےاس سے زیادہ تفصیل معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ البتہ! سلطان المشائخ کی شخصیت وعلمیت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ جیسے باکمال وممتاز شاگردنے جس اُستاذسے درس لیا ہو اُس اُستاذ کا مقام ومرتبہ کیا ہوگا۔

پہلی باراجودھن (پاک پٹن)حاضری اوربیعت و خرقہ

سلطان المشائخ اجودھن حاضر ہونے سے پہلےدہلی میں شیخ کبیربابافرید کے برادر حقیقی شیخ نجیب الدین متوکل سے متعارف ہوچکے تھے اور کچھ مدت اُن کے ساتھ قیام بھی کیاتھا، اُن کی صحبت اور گفتگو نے شیخ کبیر کی محبت جس کا آغاز بارہ سال کی عمر میں دورانِ طالب علمی بدایوں میں ہوا تھا اُس کو اور بھی مہمیز کردیا۔ پھر بھی لاکھ کوششوںکے باوجودشیخ کبیربابافرید سے ملاقات کی کوئی سبیل نہیںنکل پارہی تھی، کیوں کہ ایک تووالدہ ماجدہ ضعیفی کے عالم میں تھیں جنھیں تنہاچھوڑنا مناسب نہیں تھا اور دوسرا یہ کہ بیوہ بہن اوراُن کے بچوں کی کفالت کی ذمے داری بھی آپ کے سرتھی۔ لیکن ایک صبح فجر کے وقت کسی نے مسجد کے مینارے سے یہ آیت تلاوت کی کہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللہِ۝۱۶(حدید)(کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ سبحانہ کی یاد کے لیے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں۔) جب یہ آیت کانوں سے ٹکرائی تو وجدوشوق کی کیفیت حدوں سے آگے نکل گئی۔ اہتمام سے احرام باندھا،مسجد میں نوافل ادا کیے،والدہ ماجدہ سے اجازت طلب کی اور ۶۵۵ھ مطابق ۱۲۵۷ ء میں اجودھن کے سفر پر روانہ ہوگئے، اورشیخ کبیر بابا فریدکی بارگاہ میں حاضری دی۔

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جب میں شیخ کبیرقدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہواتو مجھے دیکھتے ہی حضرت شیخ نےیہ شعر پڑھا:؎

ترجمہ: اے نیک بخت! تیری جدائی و فرقت کی آگ نے دلوں کو کباب کردیاتھا اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے جانوں کو بےقرار ومضطرب کررکھاتھا۔

مزید فرماتے ہیں کہ میں نے چاہا کہ قدم بوسی کے اشتیاق کو کچھ تفصیل سے بیان کروں مگر شیخ کبیرکے رعب وجلال کے سبب قوت گویائی نے ساتھ نہیں دیا۔ صرف اتنا ہی کہہ سکاکہ قدم بوسی کی بڑی تمنا تھی۔ شیخ نے جب دیکھا کہ میں کافی مرعوب ہوں تو فرمایا:لِکُلِّ دَاخِلٍ دَہْشَۃٌ۔ ( فوائدالفواد، جلد:۱،مجلس: ۲۸)

یعنی ہر نیاآنے والاکچھ یوں ہی مرعوب ہوتا ہے۔

شیخ کبیرنے آپ کی بڑی خاطر فرمائی اور آپ کے لیے جماعت خانے میں چارپائی بچھانے کا حکم دیا۔ لیکن جب چارپائی بچھادی گئی تو آپ نے اپنے دل میں سوچاکہ میں اس پر ہرگز آرام نہ کروںگا۔ کتنے معزز مسافر، کتنے حافظ کلام اللہ، کتنے عاشقان الٰہی زمین پر سورہے ہیں، میں چارپائی پر کیسے لیٹوں؟ یہ خبر منتظم خانقاہ مولانا بدرالدین اسحاق کو پہنچی تو اُنھوںنے کہلوابھیجاکہ تمھیں اپنے دل کی کرنا ہے یا شیخ کے ارشاد کی تعمیل؟ آپ نے کہاکہ شیخ کےارشاد کی تعمیل کروںگا، شیخ بدرالدین اسحاق نے فرمایاکہ جاؤ چارپائی پر سوجاؤ۔(سیرالاولیاء(فارسی)، ص: ۱۰۷ )

اسی سفر میں شیخ کبیربابا فرید نے آپ کوبتاریخ۱۵؍رجب المرجب مرید کیااورخرقۂ ارادت سے مشرف فرمایا۔شرف بیعت کے وقت آپ کی عمر بیس سال کی تھی۔

قصۂ بیعت

سلطان المشائخ نے جب بیعت کی خواہش کا اظہار کیا تو شیخ کبیر قدس اللہ سرہٗ نے اُسے قبول فرمالیا اور پہلے سورۂ فاتحہ پڑھوائی، پھر سورۂ اخلاص پڑھوائی۔ اس کے بعد آمن الرسول کی تلاوت کروائی، اس کے بعد فرمایاکہ کہو:

 ’’میں نے اُس فقیر (شیخ کبیر)اور اُس کے خواجگان اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، اور عہد کرتا ہوں کہ اپنے پیر اور آنکھوں کو محفوظ رکھوںگا اور شریعت کا پابند رہوںگا۔‘‘

جب آپ نے یہ الفاظ دہرالیے تو شیخ کبیرنے قینچی لے کر آپ کے بالوں کی ایک لَٹ داہنی طرف سے قطع کی اور اپنا ایک کُرتا اپنے ہی ہاتھوں سے پہنایا۔ ( مقدمہ فوائد الفواد(مترجم)، ص:۶۱)

بیعت کرلینےکےبعد شیخ کبیرنےشیخ بدرالدین اسحاق سے فرمایاکہ مولانا !تم بھی دہلی کے ہو، اور مولانا نظام الدین بھی دہلی کے ہیں، ان کو اپنا مہمان بناؤاور ان کو پیر کے آداب سکھاؤ، اس طرح آپ شیخ بدرالدین اسحٰق کے مکان پر ٹھہرے۔(نظامی بنسری، ص: ۵۹)

بیعت کے سال ایک دن شیخ کبیر ایک عجیب باطنی کیفیت میں بیٹھے تھے اور ایک پرچہ اُن کے ہاتھ میں تھاجس میں ایک دعالکھی تھی، اُسے آپ کویاد کرنے کا حکم دیا اور خلافت دینے کی بات کہی۔ جیساکہ سلطان المشائخ قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ جب میں ابتدائی عہد میں تحصیل علوم کررہا تھااور اس میں خوب مستغرق تھاتو ایک دن شیخ شیوخ العالم نے فرمایا: نظام الدین! تمھیں یہ دعا یاد ہے؟ میں نے عرض کیاکہ مجھے یاد نہیں ہے، اس پر شیخ شیوخ العالم نے فرمایاکہ اس دعا کو یاد کرلواور کچھ دنوں تک اس پر مداومت کرو۔ اگر ایسا کرلوگے تو میں تمھیں اپنا جانشیں بنالوںگا اور خلافت کا معزز و ممتاز عہدہ تمہارے حق میں تفویض کردوںگا۔ (سیرالاولیاء(فارسی)، ص:۱۱۶)

 والدہ ماجدہ کاوصال اور اِستمداد

سلطان المشائخ  اپنی والدہ محترمہ سے متعلق فرماتے ہیں کہ میری والدہ کو اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں اِس قدر رسائی حاصل تھی کہ جب اُنھیں کوئی حاجت پیش آتی تواُس کا انجام وہ خواب میں دیکھ لیا کرتی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی حاجت پیش آجاتی تو آپ پانچ سومرتبہ درود شریف کا ورد کرتیں، اور دامن پھیلاتے ہوئے دعا کرتیں توویسا ہی ہوتا جیساکہ آپ چاہتی تھیں۔(اخبار الاخیار(فارسی)، ذکر بعضے از نسای صالحات،ص:۵۹۲)

مزید فرماتے ہیں:میری ماں کے وصال کا وقت قریب آیا تو میں نے پوچھاکہ آپ مجھے کس کے سہارے چھوڑے جارہی ہیں؟ بولیںکہ میں صبح بتاؤںگی، اور ہاں! تم جاؤ، نجیب الدین متوکل کے مکان میں سو رہو۔صبح ہوئی تو خادمہ دوڑتی بھاگتی آئی اور کہاکہ جلدی چلیے مخدومہ بلارہی ہیں۔میںوہاں پہنچاتو ماں نےمجھ سےپوچھا: تمہارا سیدھا ہاتھ کون ساہے؟میںنے اپنا سیدھا ہاتھ آگےکردیا۔ ماں نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور کہا:

’’یا اللہ! میں اِسے تمہارے سپرد کرتی ہوں۔‘‘( اخبار الاخیار(فارسی)، ذکر بعضے از نسای صالحات،ص:۵۹۴)

اور پھر وہ جاں بحق ہوگئیں ۔میری ماں کے اِس ایک جملےنےکہ’’یااللہ!میں اِسے تمہارے سپرد کرتی ہوں‘‘  مجھےاتنی خوشی دی کہ اگر وہ میرے لیے سونا سے بھرا ہوا گھر بھی چھوڑ جاتیں تو مجھے اتنی خوشی نہیں ملتی ۔ (حوالہ سابق)

وفات کے بعد جب کبھی آپ مشکلات میں ہوتے/کچھ حاجتیں پیش آجاتیں،تو آپ اپنی والدہ ماجدہ کے مزار پرجاتےاور اپنا مقصد بیان کردیتے ، چنانچہ اُمیدسے پہلے ہی آپ کی جاحتیں پوری اور دقتیں دور ہوجاتی تھیں،جیساکہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:

منقول ہے کہ سلطان علاءالدین خلجی کا بیٹاسلطان قطب الدین،سلطان المشائخ سے نزاع کےدرپے ہوا۔نزاع کا پہلاسبب یہ تھاکہ سلطان قطب الدین نے اپنےقلعہ میں ایک مسجد تعمیر کروائی اورپہلی بار جمعہ قائم کروایا تو تمام علما ومشائخ کو حکم دیا کہ اُس کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کریں۔ اِس کے جواب میں سلطان المشائخ نے کہلوابھیجاکہ ہمارے قیام گاہ کے قریب ایک مسجد ہےاور اُس کا حق زیادہ ہے کہ ہم اُس قریبی مسجد میں نماز ادا کریں،اور آپ اُس کی مسجد کو نہیں گئےاور اپنی جگہ اپنے ایک خادم خاص خواجہ اقبال کو بھیج دیا۔ایک دوسرا سبب اُس کا غرور تھاکہ تمام علماومشائخ اور ائمہ اکابربادشاہ کے بلانےپرگئے اور سلطان المشائخ کیوںنہیں گئے۔حاسدین نے بادشاہ کے سامنے اِس کا مطلب یہ نکالا کہ سلطان المشائخ، بادشاہِ وقت سے دشمنی رکھتے ہیں اِس لیے نہیں آئے۔اس طرح سلطان نے آپ کو زَک پہنچانے کا ارادہ کیا اور اِس کی خبر آپ تک پہنچی تو آپ نے کچھ نہیں کہا، بلکہ آپ اپنی والدہ ماجدہ کی زیارت کو گئے اوراُن کی قبر پر عرض کیاکہ بادشاہِ وقت مجھے زک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے ، اگر وہ اپنے ارادہ میں کامیاب ہوگیا تو میں آپ کی زیارت کو نہیں آپاؤںگا، اوراپنا عریضہ انتہائی پسرانہ ناز وادا کے ساتھ رکھااور گھرواپس آگئے۔پھر دوسرےدن صبح ایک خبرمشتہر ہوگئی کہ سلطان قطب الدین کےمقرب خاص خسروخاں نے اُس کوقتل کردیاہےاور اُس کی لاش بیرونِ محل پھینک دیاہے۔

 (اخبار الاخیار(فارسی)، ذکر بعضے از نسای صالحات، ص: ۵۹۲-۵۹۳ )

 بی بی زلیخا عرف مائی صاحبہ کا وصال ۳۰جمادی الاولیٰ ۶۵۸ھ کو دہلی میں ہوا۔

درس و تدریس کا شغل

سلطان المشائخ کے شاگردوں میں طوطی ہندحضرت امیرخسرو ،امیرخوردسید محمدکرمانی، خواجہ امیرحسن سجزی خواجہ نوح اورمولانا قطب الدین منور مشہوراور قابل ذکر ہیں، آپ نےاُن خوش نصیبوں کی تعلیم وتربیت بھی فرمائی، (غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی اور حجۃ الاسلام امام محمدغزالی رحمہمااللہ) کی طرح باضابطہ درس وتدریس سے منسلک تو نہیں رہے لیکن تعلیم کی تکمیل اوراُس سے فراغت کے بعد اپنے طورپر وقتاً فوقتاًدرس وتدریس کی طرف توجہ فرمایاتھا۔ جیساکہ خواجہ امیر حسن سجزی بیان کرتے ہیں کہ خواجہ نوح جوسلطان المشائخ سے قرابت کاشرف رکھتے تھے(۱۳؍شوال ۷۱۲ھ کا ذکر ہےکہ وہ آپ کے) سامنے بیٹھے ہوئے تھے اورآپ سے’’ مشارق الانوار‘‘ پڑھ رہے تھے، اور آپ مختلف احادیث کی وضاحت بھی فرمارہےتھے، اسی درمیان اِس حدیث پاک کا بیان آیا کہ اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو، اس کے منھ میں تھوک یا بلغم آئے اور وہ اس کو تھوکنا چاہے تو اسے چاہیے کہ قبلہ کی طرف نہ تھوکےاور نہ دائیں جانب کہ اس جانب فرشتہ رہتا ہے۔ بائیں جانب یا پیر کے پاس اس طرح تھوکے کہ عمل کثیر نہ ہو، صرف اتنا کرنے سے نماز خراب نہیں ہوتی ہے۔ مزیدحضرت ابوہریرہ والی حدیث پاک کہ جنبی غسل کا حاجتمند ہوتا ہے نجس نہیں ہوتا۔ نیز ایک اورحدیث پاک کہ جب شیطان عورت کی شکل میں کسی شخص کے سامنے آئے اور اُس کا دل اُس کی طرف مائل ہوتو وہ اپنی بیوی سے جاملےتا کہ وہ شیطانی وسوسے سے محفوظ اورسلامت رہے وغیرہ کی وضاحت اور تشریح بیان فرمائی۔(فوائد الفواد،جلد:۲، مجلس:۳۸)

اِس کےعلاوہ درس و تدریس کے تعلق سےخواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:

سلطان المشائخ دہلی میں تعلیم دینے کا شغل رکھتے تھے کہ آپ کاگزربسر اُسی سے پورا ہوتا تھا، حضرت بیس سال کی عمر سے پینتیس سال کی عمر تک طلبا کو تعلیم دینے کا کام کرتے رہے۔پھر جب خلافت لےکر آئے اور معتقدین کی کثرت ہونے لگی اورروحانی مجاہدات بھی بڑھ گئے تو تعلیم کا یہ شغل خود بخود ترک ہوگیا ہوگا، اور یہ میں نے حسب ذیل واقعات سے سمجھا ہے:

ئ  سیرالاولیاء میں حضرت (سلطان المشائخ)کا ایک بیان درج ہے کہ میں بہار اسٹیٹ کے فلاں شخص کے ہاں اُن کے بچوں کو تعلیم دینے کےلیے جانا چاہا تھا اور اُن صاحب کا بھی یہ ذکر ہے کہ حضرت نے فرمایا ہے، اُن کا خط بھی حضرت کے پاس آیا تھا جو غالباً حضرت کے خط کے جواب میں بہار کے رہنے والے نے لکھا ہوگا۔(نظامی بنسری، ص: ۳۷۴)

ئ  ۶۵۹ھ میں جب حضرت بابا صاحب نے سلطان المشائخ کو دہلی کی خلافت دی تو حضرت نے دریافت کیا کہ میرا شغل درس و تدریس ہے اس کو جاری رکھوںیا بند کردوں؟ حضرت بابا صاحب نے جواب دیا : درویش کے لیے علم بہت ضروری چیز ہے۔ تم تعلیم دینے کا شغل جاری رکھو اس کے بعد جوچیز غالب آئےگی اس سے مغلوب چیز خود ترک ہوجائےگی۔(حوالہ سابق، ص: ۳۷۵) 

ایک شبہہ کا ازالہ

خواجہ حسن نظامی نے سلطان المشائخ کے تدریسی شغل پر جوآخرالذکر دلیل ذکر کی ہے میرے خیال سےوہ محل نظر ہے ، کیوں کہ خلافت دینے کے بعد شیخ کبیر بابافریدنے آپ کے دریافت کرنے پرتعلّم(حصول تعلیم)کا شغل جاری رکھنے کی اجازت دی تھی نہ کہ تدریسی شغل کی۔ جیساکہ امیرخورد سید محمد کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

بعد ازاں بخدمت شیخ شیوخ العالم عرضداشت کردم: فرمان شیخ چیست، ترک تعلم گیرم و بہ اوراد و نوافل مشغول شوم؟ شیخ شیوخ العالم فرمودکہ من کسے را از تعلم منع نکنم آنہم کن اینہم کن تا غالب کہ آید، درویشی را قدرے علم باید۔(سیرالاولیاء(فارسی)،ص:۱۰۷)

ترجمہ: بیعت کے بعدمیں نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کیاکہ شیخ کا کیا فرمان ہے ترک تعلیم کردوں اور اورادونوافل میں مشغول ہوجاؤں؟شیخ شیوخ العالم نے فرمایاکہ میں کسی کو تعلیم سے منع نہیں کرتا۔ تعلیم بھی جاری رکھو اور اوراد ونوافل بھی کرتے رہو،یہاں تک کہ ایک دن اُن میں سے ایک چیز خود بخود غالب آجائےگی،درویشی کے لیے کچھ علم لازم ہے۔

اور یہ بات اس لیے بھی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بیعت وارادت اور خلافت کے بعد بھی سلطان المشائخ حصول تعلیم کا اعلیٰ رجحان اور خاصہ ذوق رکھتے تھےکہ شیخ کبیر بابا فرید سے آپ نے عوارف، تمہیدازابوشکور سالمی، لوائح اور تقریباً چھ سیپارے مع تجوید تعلیم حاصل کی تھی۔

پھر یہ کہ ’’درویشی را قدرے علم باید‘‘ کی بنیاد پر خواجہ اخی سراج رحمہ اللہ کی خلافت پر روک لگا دی گئی تھی ، پھر جب اُنھوں نے قابل قدر تعلیم حاصل کرلی تو خلافت نامہ جاری فرمایا۔

سند خلافت واجازت اور جانشینی

پھرجب کامل چار سال کےبعدتیسری بارسلطان المشائخ ۶۵۹ ھ مطابق ۱۲۶۱ء میںاجودھن پہنچےتو شیخ کبیر بابا فرید نے آپ کو خلافت واجازت عطا فرمائی اور سندخلافت کی تصدیق کے لیے ہانسی مولانا جمال الدین رحمہ اللہ کے پاس جانے کا حکم فرمایا۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ نے مجھے بلایا ۔ یہ رمضان کی تیرہویں تاریخ تھی اور ۶۵۹ھ کا اخیر زمانہ تھا۔ شیخ نے فرمایا: نظام الدین! جو کچھ میں نے تم سے کہا تھایادہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی یاد ہے! فرمایاکہ اچھا ایک کاغذ لاؤ اجازت نامہ لکھ دوں،تو میں کاغذ لے کر حاضرہوا، آپ نے اجازت نامہ تحریر فرمایا اور اس کے بعد فرمایاکہ اسےمولانا جمال الدین ہانسوی کو دکھاؤ اور دہلی میں قاضی منتخب الدین کو دکھاؤ۔اُس وقت آپ کی عمر ۲۴؍ سال تھی۔(متن سندخلافت واجازت نامہ سیرالاولیاء(فارسی)،ص: ۱۱۷پر ملاحظہ کریں۔)

مزید آپ فرماتے ہیں کہ جس دن جناب شیخ نے مجھے خلافت عطا فرمائی اُس دن میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اَسْعَدَکَ اللہُ فِی الدَّارَیْنِ وَرَزَقَکَ عِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلًا مَقْبُولًا۔

یعنی اللہ سبحانہ تجھے دونوں جہان میں نیک بخت کرےاور علم نافع اور عمل مقبول عطا فرمائے۔ نیز یہ بھی فرمایاکہ تم ایک ایسا درخت بنوگے جس کے سائے میں ایک خلق کثیر آرام وسکون سے رہےگی ۔ پھر یہ بھی فرمایاکہ استعداد ولیاقت کے لیے مجاہدہ کرنا چاہیے۔

غرض کہ میں اجازت نامہ لےکر رخصت ہوا ، اور شیخ جمال الدین رحمہ اللہ کے پاس ہانسی پہنچااور اُنھیں خلافت نامہ دکھایا۔وہ بڑی خندہ روئی سےملے،بے انتہا مہربانیاں فرمائیں اور یہ شعر پڑھا:

یعنی اللہ رب العالمین کا ہزارہا شکر کہ گوہر ، گوہر شناس کے پاس پہنچ گیا۔(سیرالاولیاء(فارسی)، ص:۱۱۶-۱۱۷)

سلطان المشائخ اورحکم شیخ کی تعمیل

انسانی حقوق کی ادائیگی ایک لابدی امر ہےجس سے کسی بھی صورت نجات ممکن نہیں تاوقتیکہ صاحب حق معاف نہ کردے۔یہی سبب ہے کہ شیخ کبیر نے اِس سلسلے میں بڑی تاکید فرمائی تھی اورحکم دیا تھاکہ مخالفین کو راـضی کرنے کے ساتھ اہل حقوق کو راضی کرنے میں ہرگز پیچھے نہ رہنا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ارادت وخلافت کے بعد جب میں دہلی کے لیے روانہ ہواتو مجھے یاد آیاکہ میرے ذمے ایک بزاز(کپڑا فروش)شخص کا بیس جیتل (نقدی)ہے اُسے دینے ہیں اور ایک کتاب جو میں نے ایک شخص سے ادھار لی تھی وہ کھوگئی ہےاُسے بھی راضی کرنا ہے۔لیکن دہلی پہنچنے کے بعد میرے پاس بیس جیتل جمع نہیں ہوئے کہ اُس بزاز کو پہنچاتا، معاش کی تنگی تھی اس لیے  میرے پاس کبھی پانچ جیتل ہوتےاورکبھی دس۔ ایک بار دس جیتل دستیاب ہوئے تومیں اُس بزاز کے گھر پہنچا، میں نے اُس سے کہا کہ تمہارے بیس جیتل میرے ذمے ہیں، لیکن ایک مرتبہ دینے کی سکت میرے پاس نہیں  ہے، یہ دس جیتل لے لو باقی دس جیتل ان شاءاللہ بعد میں پہنچادوںگا۔بزاز نے جب میری بات سنی تو اُس نے کہا:

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم مسلمانوں کے پاس سے آرہے ہو۔پھر اُس نے وہ دس جیتل رکھے لیے اور مجھ سے کہاکہ جاؤ، میں نے دس جیتل معاف کردیے۔

اس کے بعد میں اُس شخص کے پاس گیاجس کی کتاب میں نے ادھارلی تھی اور مجھ سے کھو گئی تھی، اُس نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں نے اُس سے کہاکہ جناب! میں نے آپ سے ایک کتاب بطور عاریت لی تھی، وہ مجھ سے کھوگئی ہے، اب میں اُس کی نقل تیار کرکے آپ کو دوںگا۔ میں بالکل اسی طرح لکھواکر آپ تک پہنچادوںگا۔ اُس شخص نے کہا کہ ہاں! تم جہاں سے آرہے ہو وہاں کایہی نتیجہ ہونا چاہیے، پھر اُس نے کہاکہ میں نے وہ کتاب تمھیں بخش دی۔( تاریخ دعوت وعزیمت، جلد:۳، باب:۲، ص:۶۹- ۷۰)

پیرومرشد اور مرید وخلیفہ کا تعلق ورشتہ

جب پہلی بار اجودھن(پاک پٹن)گئے اور(غالباً ۶۵۷ھ میں) واپسی کا وقت آیا تو سلطان المشائخ، شیخ جمال الدین ہانسوی اور شمس دبیر پر مشتمل ایک چھوٹے سےقافلے کی شکل میں روانہ ہوئے۔ رخصت کے وقت سب نے شیخ کبیر کی قدم بوسی کی۔شیخ جمال الدین نے عرض کیاکہ ہمیں کچھ وصیت فرمائیں! اس پر شیخ کبیر نے آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’انھیں خوش رکھنا۔‘‘

 لہٰذا شیخ جمال الدین نے راستے بھر آپ کی ہرضرورت کا خاص خیال رکھا۔

دوران سفر امروہہ نامی ایک گاؤں میںپہنچے جہاں کا حاکم میران نامی ایک شخص تھا اور شیخ جمال الدین کا مرید تھا۔ وہ گاؤں والوںکے ساتھ استقبال کے لیے گاؤں سے باہر نکلا اور بڑے اعزاز واکرام کے ساتھ آپ سب کو اپنا مہمان بنایا۔ اگلی صبح رخصت کے وقت اُس حاکم نے سب کی سواری کے لیے ایک ایک تازہ دم گھوڑا پیش کیا۔آپ کو جو گھوڑا ملا تھاوہ کچھ سرکش اور بدمعاش تھا۔اُس نے آپ کو بہت پریشان کیا ۔اسی بیچ شیخ جمال الدین اور شمس دبیر آگےنکل گئے اور آپ اُن سے کئی میل پیچھے رہ گئےاور یوں آپ تنہاہوگئے۔ موسم بڑاہی سخت تھا۔اُوپر سےپیاس کی شدت بھی تھی، ایسے میں گھوڑا سرکشی کرنے لگا اور آپ کو زمین پرگرا دیا۔ آپ اتنے زور سے گرےکہ بےہوش ہوگئے اور کافی دیر تک جنگل میں بےہوش پڑے رہے۔جب ہوش آیا تو دیکھاکہ آپ کی زبان پر بابا فرید کا نام جاری و ساری ہے۔

اس پر اللہ سبحانہ کا شکر ادا کیا اور خیال کیا کہ اس سے اُمید ہے کہ ان شاءاللہ وصال کے وقت بھی شیخ کا نام زبان پر جاری و ساری رہےگا۔(مقدمہ فوائد ائفواد(مترجم)، ص:۶۵-۶۶)

سلطان المشائخ اوراطاعت شیخ

 ایک موقع پرفرمان پیر کی نگہداشت کا ذکر آیا توفرمایا: ایک بار شیخ الاسلام فریدالدین قدس اللہ سرہٗ العزیز ایک دعا ہاتھ میں لیے ہوئے فرمایاکہ کوئی ہے جواِس دعا کو یاد کرلے؟ میں سمجھ گیا کہ شیخ کا مقصود یہ ہے کہ میں اُسے یاد کرلوں۔میں نے ادب سے عرض کی کہ اگر حکم ہوتو بندہ اِس دعا کو یاد کرلے۔ لہٰذاشیخ نے وہ مجھے عنایت کردی۔میں نے عرض کی کہ ایک بار مرشد کے سامنے پڑھ لوںپھر یا د کرنا شروع کروں۔ شیخ نے فرمایاکہ پڑھو۔جب میں نےپڑھا تو ایک اعراب کی اصلاح فرمائی کہ  اِس طرح پڑھو، پھر میں نے اُسی طرح پڑھا جس طرح شیخ نے پڑھا تھا۔اگرچہ جس طرح میں نے پڑھا تھا وہ بھی بامعنی تھا۔غرض کہ وہ دعا اُسی وقت میرے دل میں یاد ہوگئی۔میں نے عرض کی کہ دعایاد کرلی ہے، حکم ہوتو پڑھوں؟ فرمایاکہ پڑھو۔ میں نے دعا سنائی اور وہ اعراب ویسے ہی پڑھا جیساکہ شیخ نے اصلاح فرمائی تھی۔

پھر جب شیخ کی خدمت سے باہر آیا تو مولانا بدرالدین اسحٰق نے مجھ سے کہاکہ تم نےاچھا کیا کہ اعراب اسی طرح پڑھے جیسے شیخ نےبتائے تھے۔

اس پر میں نے کہاکہ اگر سیبویہ جو اِس علم (نحو)کا واضع ہے اور وہ سب جو اِس علم کے بانی ہوئے ہیں، آئیں اور مجھ سے کہیں کہ اعراب اُسی طرح ہیں جس طرح تم نے پڑھے تھے۔ پھر بھی میں اسی طرح پڑھوں گا جس طرح شیخ کبیرنے فرمایا ہے۔یہ سن کر مولانا بدرالدین اسحٰق نے کہاکہ اس قدر آداب شیخ آپ کے سوا کسی کو میسر نہیں۔(فوائد الفواد، جلد:۱، مجلس:۲۵ )

اجودھن دس بار حاضر ہوئے

سلطان المشائخ قدس سرہٗ نےشیخ کبیر کی حیات وممات میں کل دس بار اَجودھن تشریف لے گئے تھے۔ اجودھن کےعلاوہ کسی اور سفر پر جانےکا ذکر نہیں ملتاجیساکہ آپ خود فرماتے ہیں:

’’سہ کرت بخدمت شیخ شیوخ العالم کبیر رفتہ ام ہرسال یکبار بعد ازاںکہ نقل فرمود ہفت بار دیگر رفتہ شدہ است یاشش بار ، امااغلب گماں اینست کہ ہفت بار رفتہ ام چناںکہ در خاطر ہم چنیں مقرر است کہ درحیات وممات دہ بار رفتہ شدہ است۔‘‘(سیرالاولیاء(فارسی)، ص:۱۰۷)

ترجمہ: میں شیخ شیوخ العالم کبیر کی خدمت (ظاہری حیات)میں تین بار حاضر ہواہوں۔ ہر سال ایک بار، آپ کے انتقال کے بعد سات بار حاضر ہوئی ہے یا چھ بار!! لیکن غالب گمان یہی ہے کہ سات بار حاضری ہوئی ہے ۔ لہٰذایہی یاد پڑتا ہے کہ میںحیات وممات میں کل دس بار اجودھن حاضر ہوا ہوں۔

یعنی تین بار ظاہری زندگی میں اورسات بارشیخ کے وفات پاجانے کے بعد۔

آپ جب دہلی سے اجودھن جاتے تو بالعموم ماہ رجب میں دہلی سے روانہ ہوتے اور رَمضان کا مہینہ اجودھن میں گزارتے۔ پھر ماہِ شوال/ماہ ذیقعدہ میں واپسی ہوتی تھی۔(سیرالاولیاء(فارسی)، ص:۶۶۴)

تنبیہ:ایک اندازہ کے مطابق اجودھن کا اولین سفر ۶۵۵ھ میں ہواجس وقت والدہ ماجدہ باحیات تھیں، دوسرا سفر۶۵۷ھ/ ۶۵۸ھ میں اور تیسراسفر۶۵۹ھ کو رمضان میں ہوا، اور شیخ کبیر سےاِسی سال آخری ملاقات رہی۔

دہلی میں مستقل قیام

سلطان المشائخ قدس اللہ سرہٗ سولہ سال کی عمر میںوالدہ ماجدہ ، ہمشیرہ زینب عرف بی بی رحمت اور خادمہ کے ہمراہ ۶۵۲ھ میںدہلی پہنچے اورتقریباً نواسی(۸۹) سال تک دہلی کے مختلف مقامات پر سکونت اختیار فرمائی۔ مثال کے طور پرپہلے پہل تعلیم کی غرض سےدہلی پہنچے تو (شیخ نجیب الدین متوکل کے پڑوس ) سرائےمیاں بازار/نمک سرائے میں ٹھہرے،والدہ اور ہمشیرہ کونمک سرائے میں ٹھہرایا اور خودمقام قوّاس میںسکونت اختیار کی جو نمک سرائے کے سامنے واقع تھا۔ اسی محلے میں حضرت امیر خسرو بھی (اپنے نانا راوت عرض کے مکان میں)رہتے تھے۔(پھرجب ۶۵۹ھ میں خلافت واجازت ملی اوردہلی واپس ہوئےتو)کچھ دنوں بعد راوت عرض کامکان خالی ہوگیا، لہٰذا حضرت امیر خسرو کے توسط سے آپ اُن کے نانا راوت عرض کے مکان میں منتقل ہوگئے اور تقریباً دوسال اس مکان میں قیام فرمایا۔اتفاقاًسیدمحمدکرمانی (امیرخورد کے جدکریم)اپنےمتعلقین کے ساتھ اجودھن سے دہلی آئے تو وہ بھی اُسی مکان میں قیام پذیر ہوئے۔امیرخوردسیدمحمد کرمانی کے والد سیدنورالدین مبارک کے بقول: اُس وقت میرے اور خواجہ مبشر کے سواکوئی اور خادم نہیں تھا۔

شب و روز یوں ہی بسرہورہے تھے کہ اِسی درمیان راوت عرض کے لڑکےاپنی جاگیروں سے واپس آئےاور مکان خالی کرانے لگے۔ آپ نے مکان کی تلاش میں آدمی کو بھیجا مگرشاہی قربت حاصل ہونے کے زعم میںاُن لوگوںنےاتنی بھی مہلت نہیں دی کہ آپ کوئی اور مکان تلاش کرپاتے۔مجبوراً آپ چھپردار مسجد میں چلے گئےجو سراج بقّال کے گھر کے سامنے واقع تھی۔سیدمحمدکرمانی بھی اپنے متعلقین کے ساتھ آپ کے ساتھ ہی آگئے۔اُس وقت آپ کے پاس سوائے کتابوں کے اور کچھ سامان نہ تھا،چنانچہ سید نورالدین مبارک اور خادم خاص خواجہ مبشر اپنے سروں پر تمام کتابیں اٹھا لائے۔ ایک رات اسی بےسروسامانی میں بسرہوئی۔(سیرالاولیاء (فارسی )، ص:۱۰۸-۱۰۹)

سعد کاغذی کے مکان اور دیگر مقامات پر قیام:دوسرےدن شیخ صدرالدین رحمہ اللہ کے مریدجناب سعد کاغذی نے جب یہ ماجراسناتووہ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اور انتہائی عزت واکرام اور عاجزانہ اصرارکے ساتھ آپ کو اپنے مکان پر لےگئے، اور اُوپری منزل پرآپ کو ٹھہرایااور سید محمد کرمانی کے لیے ایک دوسرے مکان کا انتظام کردیا۔ ایک ماہ تک جناب سعد کاغذی کے مکان میں آپ کا قیام رہا۔ اس کے بعد سرائے رکابدار کے ایک مکان میں منتقل ہوگئےجو قیصر پل سے متصل تھااور سرائے کے ایک گوشے میں واقع تھا۔سید محمد کرمانی نےبھی اپنے متعلقین کے ساتھ اسی سرائے میں ایک کمرہ لیا اور مع متعلقین قیام پذیر ہوگئے۔

پھرکچھ دنوں کے بعدآپ نے سرائے رکابدارکےاُس مکان کو بھی خیربادکہہ دیا اور محمدمیوہ فروش کی دکان سے متصل شادی گلابی کے مکان پر قیام فرمایا۔ اُسی دوران(شاہی امیر) شمس الدین شرابدار کے لڑکے اوراُن کے احباب واقارب آپ کے معتقد ہوگئے اور آپ کو پورے اعزازواکرام کے ساتھ شمس الدین شرابدار کےمکان میں لے آئے۔اس مکان میں آپ کئی برسوں تک رہے۔ یہاں راحت و سکون کے ساتھ آپ کی جمعیت خاطر میں بھی کافی ترقی ہوئی۔نیز اجودھن سے جواَحباب واصحاب دہلی آتے وہ شمس الدین شرابدار کے مکان ہی میں قیام کرتے۔(سیرالاولیاء(فارسی)،ص:۱۰۸-۱۰۹)

غرض کہ تقریباًگیارہ سال (۶۵۹ھ-۶۷۰ھ ) تک سلطان المشائخ کو دہلی کے مختلف مکانات میں سکونت اختیا ر کرنی پڑی اور متعدد پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ نے ہمہ دم صبر وضبط سے کام لیا، ہمیشہ راضی برضا رہے اور کبھی ایک حرف شکایت بھی زبان پرنہیں لایا۔

درس حدیث کی تکمیل اور سند حدیث

سلطان المشائخ تقریباً ۲۳-۲۴؍ سال کی عمر میں جملہ علوم متداولہ کی تحصیل سے فارغ ہوچکے تھے لیکن تحصیل علم کی طلب ابھی تک آپ کے اندر باقی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ۶۵۹ھ میں خلافت واجازت پاجانے کے بعد بھی بیس سال تک حصول علم حدیث میں مصروف رہے۔ چوںکہ اللہ سبحانہ کو آپ سے دین ودعوت کی عظیم خدمات لینی تھی اوراُس کےلیے اعلیٰ پیمانےپر کافی و شافی علم واِستعداد لابدی تھی، چنانچہ اُس وقت کے مشہور عالم اور ماہرحدیث مولانا کمال الدین زاہدسے باقاعدہ اور منظم طورپر علم حدیث حاصل کیا،اور فن حدیث میں کامل مہارت کے حصول کے بعد محدث عصر مولانا کمال الدین سے آپ نے سندحدیث حاصل کی۔ مولانا کمال الدین  اصولی نے اپنے دست خاص سے آپ کے لیے سند نامہ تحریر فرمایا تھا، اور یوں ۲۲جمادی الاول ۶۷۹ھ میں سندحدیث سے نوازے گئے۔(خواجہ نظام الدین اولیا،ص:۵۹)

غیاث پورمیں قیام خدا کی مرضی تھی

سلطان المشائخ فرماتے ہیںکہ ابتدائی زمانے میں میرا دل دہلی میں رہنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک دن قتلغ خان تالاب میں بیٹھاقرآن مجید یاد کررہا تھاکہ میں نے ایک درویش کو دیکھا جومشغول بحق تھے۔میں اُن کے پاس گیااور دریافت کیا کہ کیا آپ اسی شہر میںرہتے ہیں؟ اُنھوںنے کہاکہ ہاں! میں نے دریافت کیا کہ اس شہر میں آپ کی طبیعت لگتی ہےاور آپ پُرسکون رہتے ہیں؟اُنھوں نے کہا:نہیں! پھر اُس درویش نےایک حکایت بیان فرمائی کہ ایک درویش کمال دروازہ (ایک جگہ کا نام)کے پاس مجھے ملا اور مجھ سے کہنے لگاکہ اگر تم ایمان کی سلامتی چاہتے ہوتواِس شہر سے نکل جاؤ۔...

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ حکایت سنی تودل میں حتمی فیصلہ کرلیاکہ اس شہر میں نہیں رہوںگا۔میرے دل میں چندمقامات کی طرف نکل جانے کا خیال آیا، مثلاً: قصبہ پٹیالی چلاجاؤں،اُن دنوں امیرخسرو پٹیالی میں تھا/بسنالہ چلا جاؤں کہ نزدیک میں واقع ہے۔ غرض کہ بسنالہ چلا بھی گیا۔ وہاں تین دنوں تک رہامگر کوئی مکان دستیاب نہ ہوا، نہ کرایہ کا اور نہ گروی اور نہ ہی قیمت پر۔تینوں دن ایک ایک شخص کا مہمان رہا۔پھر وہاں سے واپس آگیامگردل میں منتقلی کا خیال گردش کرتا رہا، یہاں تک کہ ایک بار حوض رانی باغ(معروف بہ باغ جسرت سنگھ) میں بیٹھا مناجات کررہا تھا کہ خدایا! اس شہر سے دوسری جگہ جانا چاہتا ہوں لیکن اس میں اپنی رائے کو پسند نہیں کرتا بلکہ تیری مرضی جہاں ہومیں وہاں چلا جاؤں۔

آپ فرماتے ہیں کہ ابھی میرا یہ جملہ مکمل بھی نہ ہونے پایا تھاکہ ایک غیبی آواز آئی: ’’غیاث پور جاؤ۔‘‘ حالاںکہ اُس وقت تک میں نے غیاث پور کو نہ دیکھا اور نہ اُس کے بارے میں کچھ جانتا تھاکہ غیاث پور کہاں واقع ہے۔جب میں نے یہ آواز سنی تو اپنے ایک نیشاپوری دوست نقیب کے پاس گیا۔ جب میں اُس کے دولت خانہ پر پہنچا  تولوگوں نے مجھےبتایا کہ وہ غیاث پور گیاہے۔ میں نےدل ہی دل میں خود سےکہاکہ یہ وہی غیاث پور تو نہیں ہے؟

غرض کہ میں اُس کے ساتھ غیاث پور گیااور وہاںسکونت اختیار کرلی۔ اُن دنوں غیاث پور اِس قدر آباد نہ تھا بلکہ ایک غیرمعروف علاقہ تھا اوردریائےجمناکے کنارے واقع تھا جہاں آج ہمایوں کا مقبرہ موجود ہے۔

کچھ دنوں کےبعدکیقباد(سلطان معز الدین) کیلوکہری میں سکونت پذیر ہواتواُس زمانے میںحکام وامرا وغیرہ کاآنا جانا شروع ہوگیا،اور مخلوق کی کثرت ہونے لگی۔ پھر خلقت کی جم غفیر کو دیکھتے ہوئے آپ نےغیاث پور سے بھی جانے کا ارادہ کرلیا،اور اِسی فکر وتردد میں تھے کہ ایک نحیف وناتواں جوان(اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ مردان غیب سےتھایاکوئی اور) آیا اور آتے ہی کہنے لگا:

ترجمہ: جس دن سےتم چاند بنے تھے تمھیں یہ خبر نہیں تھی کہ ایک زمانے کی انگلیاں تمہاری طرف اٹھیںگی؟ اب جب کہ تمہاری زلف نے دنیا کے دلوں کو اَسیر کرلیا ہے، تواُس کے بعد ایک گوشے میں بیٹھ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ پھر کہنا شروع کیا کہ اول تو مشہور نہیں ہونا چاہیے اور جب کوئی مشہور ہو جائےتو اِس درجہ مشہور و معروف ہونا چاہیے کہ قیامت کے دن جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے خجالت نہ اُٹھانی پڑے۔مزیداُس شخص نے کہاکہ یہ کیسی ہمت ہےاوریہ کیسا حوصلہ ہے کہ مخلوق سے الگ ہوکر مشغول بحق ہوں؟ بلکہ اصل ہمت اور حوصلہ یہ ہے کہ مخلوق کے درمیان رہتے ہوئے مشغول بحق رہیں۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جب وہ باتیں پوری کرچکا تو میں نے کچھ کھانے کے لیے اُس کے سامنے رکھالیکن اُس نے نہیں کھایا۔ میں نے اُسی وقت دل میں یہ نیت کرلی کہ غیاث پور ہی میں مقیم رہوںگا۔ جب میں نے یہ نیت کرلی تو اُس نے تھوڑا سا کھایا اور چلاگیا۔پھر میںنے اُسے کبھی نہیں دیکھا۔اس کے بعدآپ نے غیاث پور (بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی ) سے جانے کا ارادہ ترک فرمادیا۔ پھرکچھ دنوں کے بعد مولانا ضیاءالدین وکیل عمادالملک نے وہاں ایک عالی شان اور وسیع وعریض خانقاہ کی تعمیر کروادی۔ (نظامی بنسری، ص:۳۷۳)

 مجرد رہنے کا اصل سبب

سلطان المشائخ نے شادی کیوںنہیں فرمائی، اس کے مختلف وجوہات واسباب بیان کیے جاتے ہیں، مثلاً:

۱۔بعض ملفوظات میں ہے کہ بابا صاحب نے ایک تہہ بند سلطان المشائخ کو عطا فرمائی تو آپ نے کھڑے ہوکر وہ تہہ بند اپنے پاجامے کے اُوپر باندھنا شروع کیا مگر گھبراہٹ میں تہہ بند ہاتھ سے گرگیا۔ یہ دیکھ کر با باصاحب نے فرمایا:مولانا نظام الدین! تہہ بند مضبوط باندھو، اور اسی سے آپ نے  یہ نتیجہ نکالا کہ شیخ نے مجھے مجرد(غیر شادی شدہ) رہنے کا حکم دیا ہے اس واسطے آپ نے شادی نہیں کی۔( نظامی بنسری،ص: ۳۷۶)

۲۔ آپ نے صبر سے متعلق مختلف باتیں فرمائی ہیں۔ فوائد الفواد میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا: انسان عورتوں سے الگ رہے تو وہ بڑا صابر ہے اور اگر صبر نہ کرسکے اور شادی کرے تو پھر شادی کے بعد عورتوں سے جو تکلیفیں پیش آتی ہیں اُن پر صبر کرےاور تیسرا صبر یہ ہےکہ عورتوں سے ایذا اُٹھانے کے بعد صبر کرے اور جواب میں عورتوں کو ایذا دے تو پھراس کے بدلے اللہ کا عذاب برداشت کرے اور اس پر صبر کرے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نظر اپنے زمانے کی خانگی زندگی پر بہت گہری تھی اور آپ دیکھتے تھے کہ مسلمانوں کا میلان عورتوں کی طرف حد سے زیادہ بڑھ گیاہے، اور آپ یہ بھی محسوس فرماتے تھےکہ عورتوں کی طرف سے مردوں کو طرح طرح کی تکلیفیں پیش آتی ہیں اور یہ بھی ملاحظہ فرماتے تھے کہ مرد بھی عورتوں پر بہت ظلم کرتے ہیںاس واسطے آپ نے فرمایاکہ ہوسکے تو عورتوں سے الگ رہو اور خواہشات نفسانی کو دباؤ اور صبر کرو، اور نہ ہوسکے تو عورتوں کی جفاؤں پر صبر کرو یعنی ان کی جفاؤں کے سبب عورتوںپر ظلم نہ کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آئےگا اور اُس کو سہنا پڑےگا۔(نظامی بنسری، ص:۳۷۶-۳۷۷)

 ۳۔ جب شیخ العالم بابا صاحب کی وفات ہوگئی اورمولانا بدرالدین اسحٰق بھی رحلت کرگئے توحضرت سلطان المشائخ نے اپنےخواجہ تاش مولانا سیدمحمد کرمانی سے کہاکہ مولانا بدرالدین اسحٰق کے مجھ پر بہت سے احسانات ہیں۔ اُن کے بچے میرے پیرومرشد کے نواسے ہیں۔آپ اجودھن جائیں اور اُن بچوں(سیدمحمد-سید موسیٰ)کو اور اُن کی والدہ (بی بی فاطمہ)کو دہلی لے آئیں۔ چنانچہ سید صاحب  پاک پٹن گئے اور اُن سب کو لے آئے۔اُن کے یہاں آتے ہی قرابت داروں نے یہ چرچا شروع کردیاکہ آپ نے اپنے پیر کی بیٹی کو بلایا ہے کہ آپ اُن سے شادی کرنا چاہتے ہیں، اور چوںکہ اپنی برادری کو پسند نہیں کرتے اس لیےغیر کفو (غیرخاندان) میں شادی کا ارادہ رکھتے ہیں۔آپ نے جب یہ چرچا سنا تو بہت زیادہ صدمہ ہوا۔ آپ اسی وقت دہلی سے اجودھن چلے گئے اور پھر جب یہی خبر بابا صاحب کی صاحبزادی بی بی فاطمہ تک پہنچی تو اُنھیں بھی بڑا صدمہ ہوا۔ اس صدمے سے وہ بیمار ہوگئیں اور پھر اسی بیماری کے سبب وہ انتقال کرگئیں۔ اس کے بعد آپ اجودھن سے دہلی تشریف لائے۔ (نظامی بنسری، ص:۳۷۸-۳۷۹ )

۴۔آپ کا شادی نہ کرنا محض اِس وجہ سے تھا کہ اُس وقت دولت کی کثرت اور حکومت کے اختیارات کے سبب مسلمانوں کو عورتوں کی طرف بہت ہی زیادہ رغبت ہوگئی تھی، اورآپ اپنے تجرد کی مثال سے یہ دکھانا چاہتے تھے کہ انسان شادی کے بغیر بھی خوش اور مطمئن رہ سکتا ہے۔(نظامی بنسری،ص: ۳۷۹)

اِن چاروں اسباب میں سے میرے نزدیک اول الذکر اور آخرالذکر قابل قبول ہیں، جب کہ ثانی الذکر اور ثالث الذکر ناقابل قبول ہیں۔ اول الذکر اِس لیے قابل قبول ہے کہ اس میں شیخ العالم کی اطاعت ہے جودراصل اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت وتابعداری ہے، اور آخرالذکر اس لیے قابل قبول ہے کہ اس میں ایک اصلاحی و دعوتی پیغام پوشیدہ ہے جووقت کی اہم ضرورت تھی کہ وہ لوگ جواُس وقت خواہشات نفسانی میں مبتلاتھےاُس سے باز رہیں، اور یہ بھی یاد رکھیںکہ عورت کی مصاحبت کے بغیر بھی ایک کامیاب اور ناقابل فراموش زندگی بسر کی جاسکتی ہے، جیساکہ سلطان المشائخ نے خود بغیر عورت کی مصاحبت و سنگت کے اعلیٰ ترین اور قابل رشک زندگی بسر کرکے بتادیا۔

بادشاہوں سے بے تعلقی

سلطان المشائخ نےجب سے دہلی میں قیام فرمایا اُس وقت سے تاحین حیات تقریباً کل گیارہ شاہانِ و قت اور سلاطین آئے اور گئے، یہ سب غلام خاندان، خلجی خاندان، تغلق خاندان وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے، مثلاً:

غلام خاندان کے سلاطین یہ ہیں:

۱۔ ناصرالدین محمود(۱۲۴۶-۱۲۶۶)،۲۔ غیاث الدین بلبن(۱۲۶۶-۱۲۸۶)،۳۔ معزالدین کیقباد (۱۲۸۶-۱۲۹۰)، ۴۔ شمس الدین کیموراس/کیومرث(۱۲۹۰)۔

  خلجی خاندان کے سلاطین یہ ہیں:

۱۔جلال الدین خلجی(۱۲۹۰-۱۲۹۶ء)، ۲۔ علاالدین خلجی(۱۲۹۶-۱۳۱۶ء)، ۳۔ شہاب الدین (۱۳۱۶ء)،   ۴۔ قطب الدین مبارک(۱۳۱۶-۱۳۲۰ء)، ۵۔ ناصرالدین خسرو خان(۱۳۲۰ء)، خسروخان، خلجی خاندان سے نہیں تھا بلکہ قطب الدین مبارک کا غلام تھا اور قطب الدین کو قتل کرکے سلطان بنا تھا۔

  تغلق خاندان کے سلاطین یہ ہیں:

۱۔ غیاث الدین تغلق (۱۳۲۰-۱۳۲۵ء)،محمد تغلق(۱۳۲۵-۱۳۳۵ء)، اور پھرتغلق خاندان کے دیگر سلاطین تخت نشیں ہوتے رہے۔(جامع تاریخ ہند، باب: ۳،۴،۵،ص:۲۷۴-۸۷۳)

 دہلی میں سلطان المشائخ کی زندگی دوخانوں میں منقسم ہے:ایک ابتدائی ایام جن میں آپ نےانتہائی عسرت بھری زندگی بسر فرمائی، اور دوسرا خلجی عہدحکومت جس میں آپ بڑی ہی فراخی کے ساتھ رہے، نیزاِس عہد میں آپ فضل وکمال کے اعلیٰ مقام پر فائزتھے،اور باوجودیکہ شاہانِ وقت اور سلاطین زمانہ کی یہ بڑی خواہش ہوتی تھی کہ آپ اُن سے گہرے روابط رکھیںلیکن آپ تنگ حالی اور خوش حالی دونوں ایام میں حکمرانوں سےبالکل بےنیاز وبےتعلق رہے۔ اس کے بہت سے شواہد ہیں، مثلاً:

۱۔ جب علاء الدین خلجی تخت نشین ہواتو اُس وقت سلطان المشائخ کی مقبولیت آسمان کی بلندی پر تھی، اورایک بڑی تعداد میں عوام الناس اور اُمرا دونوں طبقات آپ کےمعتقد ہوگئے تھے۔ صبح و شام لنگر جاری رہتا، جہاں لوگ اپنے پرائے،رنگ ونسل اور مذہب و ملت میں کسی تفریق کےبغیر آسودگی حاصل کرتے تھے۔ اِس قدر بڑے پیمانے پرلنگرکا اِنتظام واہتمام ہوتا دیکھا تو علاء الدین خلجی نے آپ کی مخبری بھی کرائی مگر آپ اِن تمام باتوں سے بےنیاز عبادت الٰہی اور خدمت خلق میں مشغول رہے۔ آخرکار آپ کے اخلاص اور خلق دوستی کے سامنے علاءالدین خلجی کی مخبری دھری کی دھری رہ گئی اورپھر وہ اِس قدر عقیدت مند ہواکہ اپنے دوبیٹے خضرخاں اور شادی خاں کو ہمیشہ ہمیش کے لیےآپ کی غلامی میں دے دیا۔

خضرخاں اور شادی خاں آپ کی غلامی میں کیسے آئے؟یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ہوا یوںکہ دونوں صاحبزادے جب آپ کے پاس بیعت کی غرض سے پہنچےتوآپ نے اُن دونوں سےکہاکہ پہلے بادشاہ کی طرف سے اجازت نامہ لاؤ۔چنانچہ علاءالدین خلجی نے اپنے ایک شاہی گورنر کو اپنا وکیل بنایا اور آپ کی خدمت میں بھیجا، جب اُس نے علاء الدین خلجی کی طرف سے اجازت نامہ پیش کیا۔ اس کے بعدآپ نے خضرخاں اور شادی خاںکو بیعت کیا اور خرقہ عنایت فرمایا۔(مقدمہ فوائد الفواد(مترجم)،ص: ۸۲-۸۴)

۲۔  پھرایک بارکچھ حاسدین و معاندین کے ورغلانے پرعلاءالدین خلجی کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ آپ کی مقبولیت سےکہیں حکومت کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے؟پس آپ کا اصل ارادہ جاننے کے لیے اُس نے آپ کوایک خط لکھاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا کا مال و زرمجھے بخشا ہے اور آپ مخدوم عالمیاں ہیں، میرے لیے بڑی نیک بختی اور سعادت ہوگی کہ جو کوئی مہم پیش آئے / جن اُمور میں عوام الناس کی بھلائی ہو اُس تعلق سے مجھے مشورہ دیا کریں تاکہ میں آپ کے مشورے اور ہدایات کی روشنی میں عوام کی بھلائی کے لیے کام کروں۔فی الحال کچھ مسائل درپیش ہیں، وہ میںآپ کو لکھتا ہوںجن میں حکومت ومملکت کی بھلائی پوشیدہ ہواُس سےمجھے آگاہ فرمائیں۔

چنانچہ سلطان علاءالدین خلجی کا خط جب آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے خط پر نظر ڈالے بغیراُسے ایک طرف ڈال دیا، اور خضرخاں سے فرمایا: ’’ درویش کو بادشاہوں سے کیا لینا دینا ہے؟‘‘

 پھر فرمایاکہ میں درویش ہوں، شہر سے دورایک گوشے میں پڑا ہوں،مسلمانوں اور بادشاہ کے حق میں دعاگو ہوں۔ اگر حکومت سےمتعلق آئندہ بادشاہ نے مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کی تو میں یہاں سے چلاجاؤںگاکہ اللہ کی زمین وسیع تر ہے۔

خضرخاں نے یہ جواب اپنے والد علاءالدین خلجی کو بتایا تو وہ بڑاخوش ہوا، اور کہاکہ حضرت سے مجھے اِسی جواب کی اُمید تھی۔ کچھ بدخواہوں نے مجھے اُن سے بدظن کرنے کی کوشش کی اورمجھے اُن سےلڑانا چاہا۔

اس کے بعد علاءالدین خلجی نے آپ کی خدمت میں ایک معذرت نامہ بھیجا اور خانقاہ میں آنے کی اجازت طلب کی۔ اس پر آپ نےفرمایا:

’’بادشاہ کو آنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں غائبانہ دعا میں مشغول ہوںاور ایسی دعا میں زیادہ اثر ہوتا ہے۔‘‘

پھر جب اُس نے آنے کے لیے زیادہ زور ڈالا توآپ نے کہلابھیجا:

 ’’فقیرکے گھر میں دو دروازے ہیں: ایک سے بادشاہ داخل ہوگا تو دوسرے سے میں نکل جاؤںگا۔

اِس طرح آپ سے سلطان علاءالدین خلجی کی عقیدت و محبت اور بھی مضبوط ہوگئی جوآخری دم تک قائم رہی اور نتیجے کے طورپردینی و اخلاقی اصلاحات اور عوامی صلاح و فلاح کے کارہائے نمایاں انجام پائے۔

خدمت خلق اوربخشش وعنایات

سلطان المشائخ کی خدمت میںکثرت سے تحفےتحائف آتے تھے مگر آپ کچھ بھی بچاکر نہیں رکھتےتھے، بلکہ ضرورتمندوں میں تقسیم کروادیاکرتے تھے۔آپ عنایات وبخشش اس طورپر فرمایا کرتے تھےکہ مانوعطاوبخشش کا دریا بہہ رہاہو۔نیزآپ کیعطا و بخشش کے اندازبھی بڑے نرالے تھے۔ باوجود کہ عنایت سب کو کرتے تھے مگر کس کو کیا دیا کوئی جان نہیں پاتا تھا۔ شواہد کے طورپر درج ذیل واقعات ملاحظہ کریں، مثلاً:

۱۔ایک بار ایک شخص آپ کی خدمت میںآیا ،تو آپ نے خواجہ اقبال سے فرمایاکہ اُنھیں شکر کی ایک پڑیا دےدو۔ وہ شخص پڑیا لیا اور چلاگیا۔ گھر پہنچنے کے بعد پڑیا کھولی تو دیکھا کہ اُس میں شکر کی جگہ دس تنکے (سکے) ہیں۔ وہ سمجھاکہ خواجہ اقبال نے یہ پڑیا دھوکے سے مجھے دے دی ہے۔ وہ خانقاہ واپس آیا اور آپ کی خدمت میں وہ پڑیا پیش کی اور کہا کہ حضور! شکر کی پڑیا کی جگہ بھول سے مجھے دس تنکوں کی پڑیادےدی گئی تھی۔

یہ سن کرآپ مسکرائے اور فرمایا: ’’ارے خواجہ! یہ تو اللہ تعالیٰ تمھیں دے رہا ہے، ہم درمیان میں کون ہوتے ہیں؟ تم انھیں رکھو اور جیسے جی چاہے خرچ کرو۔‘‘

۲۔ اسی طرح ایک بار ایک شخص کو آپ نے ولایتی کپڑے کا ایک تھان عطا کیا، تو وہ سونے کے چند سکوں کے ساتھ خدمت میں حاضرہوا، اور کہا کہ حضور! کپڑے کے تھان میں غلطی سے سونے کے یہ سکے چلے گئے تھے۔ اس سے بھی آپ نے یہی فرمایا: جب اللہ تمھیں دے رہا ہے تو میں کون ہوں؟ یہ تمہارے ہیں ،اسے تم خرچ کرو۔

۳۔ ایک بارغیاث پور کے زمانے میں ایک طالب علم خانقاہ میں آیا۔آپ نےپہلے اُس کو کھانا کھلایا پھر خواجہ اقبال کو حکم دیاکہ’’ انھیں آدھا تنکا دے دو۔‘‘ خواجہ اقبال نےکہاکہ اس وقت موجود نہیں ہے، فرمایا:

 ’’کسی سے لے کر دے دو۔‘‘ 

اس وقت اتفاق سے کہیں بھی تنکا نہیں ملا۔ خانقاہ میں ایک بیل بندھا ہوا تھا، فرمایاکہ اس بیل کو بازارمیں بیچ آؤ۔ بیل کو بازار لے جایاگیا لیکن بازار کا وقت نکل جانے کے سبب بیل فروخت نہ ہوسکا۔طالب علم نے کہاکہ بیل ہی مجھے دے دیجیے، میں بیچ لوںگا۔ بیل۴-۵؍ تنکے کا تھا۔حضرت اَخی مبارک نے یہ بات آپ کی خدمت میںپیش کی تو فرمایاکہ ’’ہاں! اُسے بیل دے کر رخصت کردو۔‘‘(مقدمہ فوائد الفواد(مترجم)،ص: ۷۶-۷۸)

اسی پر بس نہیںبلکہ سلطان المشائخ نے باقاعدہ اپناایک اصول بنارکھاتھاکہ کس کو کتنا وظیفہ دیاجائے۔لہٰذا غیاث پوراورقرب وجوار میں رہنے والے کوباضابطہ خانقاہ کی طرف سے روز وظیفہ دیا جاتا تھا۔ شہرمیں رہنے والے کو ہفتہ واروظیفہ دیا جاتا تھا۔آس پاس کے قصبوں اور علاقوںمیں رہنے والے کو ماہانہ وظیفہ عطا ہوتا تھااور دوردراز سے آنے والوں کے لیے ششماہی یا سالانہ وظیفے مقرر کیے گئےتھے۔یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی آتا اُسے تقسیم فرمادیا کرتے تھے اور اپنے پاس کچھ ذخیرہ نہیں رکھتے تھے۔ بقول سید امیر خورد کرمانی: وفات کے وقت جب لنگرخانے میںکچھ غلہ تقسیم ہونے سےرہ گیاتوآپ سخت ناراض ہوئےاور فرمایاکہ انبار خانوںکے دروازے توڑڈالو،یہ غلہ زمین کی مٹی ہے اس کو کیوں رکھا ہے۔ فقیروں کو بلاؤ اور اُن سے کہوکہ یہ سب غلہ لے لیںاور ایک تنکا بھی باقی نہ چھوڑیں۔چنانچہ جماعت خانے سےسارا سامان نکلوالیاگیااور خواجہ اقبال کو حکم دیاکہ جوکچھ ہے سب غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کردو، ورنہ کل اللہ سبحانہ کے سامنے تمھیں جواب دینا پڑےگا۔

اصلاحات ودعوات

سلطان المشائخ تقریباً۶۶؍ سال تک مسند بیعت وارشاد پر متمکن رہے۔ اس بیچ آپ نے محتاجوں، مسکینوں اور بیکسوں کی محض خبررکھنے اور اُن کی امداد کرنے پر ہی اکتفانہیں کیابلکہ اُن کے اندر درآئی عملی خرابیوں اوراخلاقی بیماریوں کو بھی دورکیا، اور اُن کی کامل اصلاح فرمائی۔آپ نے ایک طرف قلب وروح کوپاکیزگی عطاکی تو دوسری طرف سیرت واخلاق کی درستگی کا نسخہ کیمیا عطا فرمایا، اور اس تعلق سے آپ کے نزدیک شاہ وگدا، علماوفقہا، سلاطین و حکمران،عوام وخواص،ملازمت پیشہ واہل صنعت و حرفت سب برابر تھے، کسی کوکسی پر کوئی فوقیت اورامتیاز حاصل نہ تھا۔

پھرایک ایسے ماحول میں جب کہ دین بیزاری اورنفس پرستی عام ہوچکی تھی،آپ نے لوگوں کے دلوں میںدینی اورعرفانی لہر دوڑا دی جسے ہر کسی نے محسوس کیا۔یہی وجہ تھی کہ آپ کی اصلاحی و فلاحی کوششوں کےباعث آس پاس کاماحول حیرت انگیز طورپر اسلام،ایمان، احسان کے رنگ میں رنگ گیاتھا، یعنی سنت رسول اوراحکام شریعت کی پاسداری اور اہتمام لوگوں کے معمولات میں بطور خاص شامل تھا۔

مورخین کے مطابق: سلطان علاءالدین خلجی کے عہد حکومت میں سجادۂ تصوف شیخ الاسلام نظام الدین اولیا اور شیخ الاسلام رکن الدین قدست اسرارہما سے آراستہ تھا۔ ایک دنیا اُن نفوس قدسیہ سے روشن و منورہوئی اور ایک عالم نے اُن کی بیعت کا ہاتھ پکڑا، گنہگاروں نے توبہ کی، ہزاروں بدکا روں اور بے نمازیوں نے بدکا ری سے ہاتھ اُٹھا لیااور ہمیشہ کے لیے پا بند نماز ہوگئے اور باطنی طور پر دینی وظائف کی طرف رغبت ظاہر کی، اُن مشائخ کے اخلاق حمیدہ سے اور ترک و تجرید کے معاملات دیکھنے سے دنیا کی حرص و محبت دلوں میں کم ہو گئی اوراُن کی عبادات ومعاملات کی برکت سے لوگوں کے معاملات میں سچائی پیدا ہو گئی۔جیساکہ مشہور مؤرخ مولانا ضیاء الدین برنی رحمہ اللہ جو سلطان المشائخ کے حلقہ ارادت میں داخل تھے، لکھتے ہیں:

 اُسی ز مانے میں سلطان المشائخ نے بیعت کاعام دروازہ کھول رکھا تھا ۔آپ گنہ گا روں کو خرقہ پہناتے، اُن سے توبہ کراتے اور اپنی مریدی میں قبول کرتے۔ خاص وعام، امیر و غریب، بادشاہ و فقیر ، عالم وجاہل ، شریف ورذیل ، شہری و دیہاتی سب کو توبہ کراتے اور پا کی کی تعلیم دیتے تھے، اگر شیخ کے کسی مرید سے کوئی لغزش ہو جاتی تو پھر نئے سرے سے بیعت کرتے تھے اور توبہ کا خرقہ عطا کرتے تھے ۔

 آپ کی وجہ سے مرد وعورت ، بوڑھے جوان، با زاری ، عامی ، غلام اور نوکر سب کے سب نماز ادا کرنے لگے تھے اور زیادہ تر مریدین نمازچاشت واشراق کے پابندبھی ہو گئے تھے، نیک کام کرنے والوں نے شہر سے غیاث پور تک تفریحی جگہوں پر صفّے(چبوترے)قائم کر دیے تھے، چھپر ڈال دیے تھے، کنویں کھدوادیےتھے، پانی کے گھڑے اوروضوکے لیے لوٹے رکھوا دیے تھے، چٹائیاں بچھوادی تھیں، ہرصفّے( چبوترے) اور ہر چھپر میں ایک چوکیدار اور ایک ملازم مقرر تھا، تا کہ مرید اورتوبہ کرنے والوںکو شیخ کے آستانے تک آنے جانے میں اور نماز کے وقت وضو کرنے میں کوئی دقت اور تردد نہ ہو، چبوترہ اور چھپر میں نفل نماز پڑھنے والوں کا ہجوم دیکھا جاتا تھا اور لوگوں کے درمیان گناہ کم ہو گیا تھا۔بلکہ اکثر لوگوںکونماز چاشت، اشراق ، اوّابین ، تہجدکی رکعتیں اوران کے طریقے بھی یاد تھے کہ ان نمازوں میں کتنی رکعتیں ادا کرتے ہیں اور ہررکعت میں کلام پاک کی کون سی سورت اور کون سی آیت پڑھتے ہیں ...اس زمانے میں اکثر لوگوں کے درمیان حفظ قرآن کا ذوق بھی پیدا ہو گیا تھا۔

مشائخ کے اوصاف حمیدہ اور ان کے احوال بیان کرنے کے سوا کو ئی دوسرا کام نہ تھا۔ دنیا اور دنیا داروں کا ذکر لوگوں کی زبان پر نہیں آتا تھا ،کسی دنیا دار کے گھر کی طرف اپنا رخ نہیں کرتے تھے ، کثرت نوافل کی اس قدر پابندی تھی کہ بادشاہ کے محل میں بہت سے امرا ، لشکری اورسپاہی جو شیخ کے مرید تھے چاشت واشراق کی نماز ادا کرتے اور ایام بیض کے روزے رکھتے، سلطان علاءالدین خلجی اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ شیخ کا معتقد اور مخلص ہو گیا تھا ۔ خواص وعوام کے دلوں نے نیکی کی راہ اختیارکرلی تھی ، عہد علائی کے آخری چند برسوں میں شراب نوشی،  عشق بازی، فسق وفجور، سٹہ وجوا ، فحاشی و عریانی وغیرہ کانام بھی عام انسانوں کی زبان پر نہیں آتاتھا، کبیرہ گناہوں کولوگ کفر کے مشابہ تصورکرنے لگے تھے ، مسلمان ایک دوسرے سے شرم کےسبب سود خوری اور ذخیرہ اندوزی کا کھلم کھلا مرتکب نہیں ہوتے تھے ، بازار سے جھوٹ بولنے اور کم تولنے کا رواج اٹھ گیا تھا ، اکثر طالب علموں اور بڑے لوگوں کی رغبت جوشیخ کی خدمت میں رہتے تھے تصوف اور احکام طریقت کی کتابوں کی طرف ہوگئی تھی۔ جیسے:قوت القلوب، احیاء العلوم ،  عوارف المعارف، کشف المحجوب، رسالہ قشیریہ وغیرہ کے بہت سے خریدار پیدا ہوگئے  تھے۔زیادہ تر لوگ کتب فروشوں سے سلوک وحقائق کی کتابوں کے بارے میں دریافت کرتے تھے، کوئی پگڑی ایسی نہ تھی جس میں مسواک اور کنگھی لٹکتی نظر نہ آتی تھی۔ غرض یہ کہ اللہ سبحانہ نے شیخ نظام الدین کو پچھلی صدیوں کے حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامی کے مثل پیدا کیا تھا۔ ( تاریخ فیروز شاہی(ملخصاً)، ص: ۳۴۱تا۳۴۶بحوالہ تاریخ مشائخ چشت،ص:۱۹۳-۱۹۴)

آخری حالات اوروصال

سلطان المشائخ زندگی کے آخری ایام میں کافی بیمار رہنے لگے تھےاور آپ کی بینائی بھی متاثر ہوتی رہتی تھی۔آخری ایام میں خدمت گاران کی یہی کوشش رہتی کہ آپ کی خدمت میں حاضر رہیں اور خدمت کے ساتھ کچھ اچھی اچھی باتیں بھی کریںتاکہ آپ کو سکون ملے۔ کبھی کبھی آپ لطائف سننے کی فرمائش بھی کردیتے تھے۔مثلاً: ایک بارکا ذکر ہے کہ آپ بیمار تھے ، خواجہ برہان الدین غریب اور خواجہ بہاءالدین حاضر خدمت تھے۔ آپ نے مولانا بہاء الدین سے فرمایاکہ کوئی لطیفہ سناؤ۔ مولانانے بیان کرنا شروع کیا کہ ایک شخص بیمار تھا ، ڈاکٹرنے اُس سے کہاکہ آبِ گوشت کے سوا کچھ نہیں کھانا۔ چنانچہ اُس کے لیے دومن گوشت منگوایا گیا اور اسی قدر اُس میں پانی ڈالا گیا اور پھر جب پکتے پکتے ایک پیالہ رہ گیا تو وہ آبِ گوشت اُسے پینے کو دیا گیا۔

 ڈاکٹر نے اُس سےکہا کہ ’’آج تم نے دومن گوشت کھایا ہے۔‘‘

یہ سن کر آپ نے تبسم فرمایا۔(مقدمہ فوائد الفواد،ص: ۱۰۸-۱۰۹، بحوالہ نفائس الانفاس، ۲۹؍ صفر ۷۳۴ھ)

 وصال سے چالیس دن پہلے آپ کےمعمولات میں واضح طورپر فرق آنا شروع ہوگیا تھا۔ جیسے: آپ پر تحیر کا عالم طاری رہتا، باربار بےخود ہوجاتے، پھر ہوش میں آجاتے اور فرماتے:

ـــ ’’آج جمعہ کا دن ہے، دوست کو دوست کا وعدہ یاد آتا ہے اور وہ اس میں غرق ہوجاتا ہے۔‘‘

اسی عالم میں دریافت فرماتے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے، نماز ادا کرلوں؟ جواب دیاجاتا کہ آپ نماز ادا کرچکے ہیں،تو فرماتے:’’پھر سےپڑھ لوں۔‘‘ غرض کہ جتنے دنوں تک استغراقی کیفیت طاری رہی، ہرنماز مکرر ادا کرتے تھے۔اس کے علاوہ یہ دوباتیں باربار فرماتے تھے: ’’آج جمعہ کا دن ہے، ہم نماز ادا کرچکےہیں؟‘‘

نیز یہ مصرعہ بھی آپ باربارپڑھتے تھے:’’می رویم ومی رویم و می رویم‘‘

یعنی ہمیں جانا ہے،ہمیں جاناہے، ہمیں جاناہے۔(سیرالاولیاء، (فارسی، باب:۱، نکتہ:۵،ص:۱۵۳)

 ایک بار شیخ رکن الدین ملتانی عیادت کو آئے اور فرمایاکہ انبیاومرسلین کو حیات وممات میں اختیار دیاگیا ہے ، علما ومشائخ وارثین انبیا میں شامل ہیں، اگر آپ بھی کچھ دنوں تک اور دنیا میں رہنے کا ارادہ فرمالیں تو طالبین کو بہت فائدہ پہنچےگا۔ مگر آپ نے رندھی ہوئی آواز میں فرمایا: آج کل ہر شب رسالت مآب ﷺ کوخواب میں دیکھ رہا ہوں، آپ ﷺفرماتے ہیں:’’نظام! اشتیاق تو مابیشتر است زود بیا در کف ما ۔‘‘

یعنی نظام! تم سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے جلدی آؤ اور ہمارے پاس آرام کرو۔

سیرالاولیا میں ہےکہ جب سید حسین نے عرض کیا کہ مخدوم نے کافی دنوںسے کھاناپیناترک کررکھا ہے، تو ایسے میں آپ کا کیا حال ہوگا؟آپ فرماتے:

 ’’ جس کا مشتاق رسالت مآب ﷺ ہوں اُس کودنیوی کھانا کیسے اچھا معلوم ہوگا!!

اسی بیماری کے زمانے میں خدام نے دریافت کیاکہ مخدوم کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟ فرمایاکہ میرے روضے پر  اتنا آتا رہےگاجو تم لوگوں کے لیے کفایت کرےگا۔ کسی نے پھر عرض کیاکہ اس کی تقسیم کون کرےگا؟ مراد یہ تھاکہ روضہ کا جانشین وخلیفہ کون ہوگا؟ فرمایا: ’’جس کا نصیبہ ساتھ دےگا ۔‘‘

بعض خدام نے مولانا شمس الدین دامغانی سے کہا کہ وہ دریافت کریں کہ ہم میں سے ہرایک شخص نے اپنی اپنی عقیدت کے مطابق آپ کے احاطے میں بلند وبالا عمارتیں بنالی ہیں اورہرایک کی یہی خواہش ہے کہ آپ اُس کی عمارت میں مدفون ہوں۔ اگر قضائےالٰہی آجاتی ہے، تو ہم آپ کو کس کی بنائی عمارت میں دفن کریںگے؟ چنانچہ مولانا دامغانی نے عرض کیاکہ آپ کہاں آرام فرمانا پسندفرمائیں گے؟ اس پرآپ نے فرمایاکہ میں صحرا میں کھلے آسمان کے نیچےمدفون ہوںگا۔پس آپ کو صحرا میں دفن کیا گیا ، جس پر بعد سلطان محمد تغلق نے گنبد کی تعمیر کروائی۔

بالآخرایک دن طلوع آفتاب کے بعدآپ کی وفات کا وقت قریب آگیا،اس دار فانی سے کوچ فرمایا اور اپنے مالک حقیقی عز وجل سے جاملے۔جب آپ کا وصال ہواتو ۱۷؍ربیع الآخر ۷۲۵ھ / ۲؍اپریل ۱۳۲۵ء کی تاریخ تھی اوردن بدھ کا تھا۔(سیرالاولیا، باب:۱،نکتہ:۵، ص:۱۵۲-۱۵۵)

اس کے بعد جب لحد کھودنےکا معاملہ سامنے آیا تو شیخ رکن الدین ملتانی نے خواجہ اقبال سے دریافت کیاکہ حضرت، مقابرِ یاران پر فاتحہ خوانی کے لیے آتے تھے تو کس مقام پر بیٹھتے تھے؟ خواجہ اقبال نے ایک جگہ بتائی کہ جہاں نارنگی کا درخت لگا ہوا تھا، اور یہ بھی کہاکہ آپ کی نشست اس درخت کے نیچے ہوا کرتی تھی۔لہٰذاشیخ رکن الدین نے اسی جگہ پرآپ کی لحد کھدوائی۔

پھر اُسی دن دوپہر میں ظہر کی نماز سے پہلےغیاث پور(بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی) میں مدفون ہوئے۔ شیخ رکن الدین ملتانی اور خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلی رحمہمااللہ نے آپ کو لحد میں اُتارا، اورشیخ کبیر بابافرید قدس سرہٗ کے تبرکات (خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح)قبر میں رکھےگئے۔ (مقدمہ فوائد الفواد، ص:۱۰۹-۱۱۱)

شیخ الاسلام بہاءالدین زکریا قدس سرہٗ کے نبیرہ شیخ الاسلام رکن الد ین نے آپ کی نمازجنازہ پڑھائی، اور اس کے بعد فرمایاکہ آج مجھےیقین ہوگیا کہ چاربرسوں مجھےتک دہلی شہرمیں روکے رکھنے کا اصل مقصد یہی تھا کہ سلطان المشائخ کی نماز جنازہ کی امامت کاشرف مجھے ملنےوالا تھا۔(سیرالاولیاء، (فارسی، باب:۱، نکتہ:۵،ص:۱۵۵)

مرقداَنور سے معمول کے مطابق آج بھی چشتی نظامی فیضان جاری وساری ہے۔







0 Comments

Type and hit Enter to search

Close